اسلام، غامدیت اور مغرب

1305

ایک اعتبار سے دنیا میں انسانوں کی دو ہی قسمیں ہیں۔ انسانوں کی ایک قسم وہ ہے جو ہر حال میں صرف حق کو مانتی ہے اور اس کا ساتھ دیتی ہے۔ انسانوں کی دوسری قسم وہ ہے جو صرف وقت کی غالب قوت کا ساتھ دیتی ہے۔ برطانیہ غالب ہو تو وہ برطانیہ کا ساتھ دیتی ہے۔ امریکا غالب ہو تو وہ امریکا کا ساتھ دیتی ہے۔ مسلم دنیا میں کروڑوں لوگ ہیں جو صرف اس لیے مغرب کے ساتھ ہیں کہ مغرب غالب ہے۔ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی اس لیے انگریزوں کے ساتھ نہیں تھے کہ وہ حق پر تھے بلکہ وہ اس لیے ان کے ساتھ تھے کہ وہ غالب تھے۔ آج غامدی صاحب مغرب کے ساتھ ہیں تو صرف اس لیے کہ مغرب غالب ہے۔ کل دنیا میں چین غالب قوت بن جائے گا تو آپ دیکھیں گے کروڑوں لوگ چین کے ساتھ ہوجائیں گے۔ ان باتوں کا زیر بحث موضوع سے گہرا تعلق ہے۔ جیو نیوز پر 19 اگست 2021ء کے روز کیپٹل ٹاک نشر ہوا۔ اس روز کے کیپٹل ٹاک کے میزبان منیب فاروق اور مہمان جاوید احمد غامدی تھے۔ اس پروگرام کی ہر بات غلط اور اشتعال انگیز تھی۔ لیکن کچھ باتیں ایسی تھیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ باتیں کیا تھیں آپ منیب فاروق اور غامدی صاحب کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’منیب فاروق: آپ کے نقطہ ٔ نظر کے مطابق افغان طالبان جو اس وقت وہاں پر ’’مسلط‘‘ ہیں یا ’’قبضہ‘‘ ہے یا Take Over کرلیا ہے، کیا ’’شرعی‘‘ اعتبار سے آپ کے ’’نقطہ ٔ نظر‘‘ کے مطابق جائز ہے‘‘۔
’’غامدی: اسلام کے نقطہ ٔ نظر کے مطابق حکومت قائم کرنے کا ایک ہی طریقہ جائز ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ لوگوں کی رائے سے قائم ہو۔ یہ افغان عوام کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ کس کو حکومت کرنی ہے۔ لوگ ان دنوں یہ کہتے ہیں کہ (افغانستان میں) فلاں اور فلاں کو شکست ہوگئی۔ خاص طور پر ہمارا قومی مزاج یہ ہے کہ امریکا کو شکست ہوگئی ہے۔ یہ ہمیں بہت تسکین دیتا ہے۔ امریکا ایک بڑی طاقت ہے۔ عالمی طاقتیں اس طرح کے ’’ایڈوینچر‘‘ کرتی رہتی ہیں۔ اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل میں شکست افغان عوام کو ہوئی ہے۔ وہ 21 ویں صدی میں بھی اس سے محروم ہیں کہ وہ اپنے حکمرانوں کا انتخاب اپنی مرضی سے کریں۔ جائز حکومت تو صرف وہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ مسلمانوں کے یہاں جو بھی نظام بنے گا وہ لوگوں کی رائے اور مشورے سے بنے گا۔ طالبان ہوں یا کوئی اور اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کی رائے حاصل کرے۔ افغانستان میں اس وقت ایک دستور موجود ہے۔ یہ آخری درجے کا اسلامی اور مذہبی دستور ہے۔ طالبان کو اس دستور کے مطابق حکومت سنبھالنی چاہیے۔ جائز حکومت صرف لوگوں کی رائے سے قائم ہوتی ہے۔ وہ بندوق کے زور پر قائم نہیں ہوتی‘‘۔
آپ نے منیب فاروق کا سوال اور غامدی صاحب کا جواب ملاحظہ فرمایا۔ ذرا منیب فاروق کے سوال پر غور فرمائیے۔ انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ امریکا افغانستان میں ’’جارح‘‘ تھا۔ وہ وہاں 20 سال سے ’’قابض‘‘ تھا۔ وہ وہاں 20 سال سے ’’مسلط‘‘ تھا۔ منیب فاروق کو افغانستان پر گفتگو کرتے ہوئے جو بات یاد رہی وہ یہ کہ افغانستان کو امریکا سے آزاد کرانے والے طالبان اپنے ہی ملک پر ’’مسلط‘‘ ہیں۔ ان کا افغانستان پر ’’قبضہ‘‘ ہے۔ انہوں نے افغانستان کو ’’Take Over‘‘ کر لیا ہے۔ تسلط اور قبضے کو طالبان سے منسلک کرنے کا عمل اتفاقی نہیں۔ یہ ایک شعوری عمل ہے۔ اس کا مقصد طالبان کے امیج کو تباہ کرنا ہے۔ ان کے بارے میں اس خیال کو عام کرنا ہے کہ وہ کوئی مثبت قوت نہیں بلکہ ایک منفی قوت ہیں۔ حالاں کہ افغانستان کے حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ امریکا نے افغان قوم کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا۔ وہ طاقت کے زور پر افغانستان کو زیر تسلط لایا اور اس نے قوت کی بنیاد پر افغانستان پر 20 سال تک قبضہ کیے رکھا۔
غامدی صاحب نے منیب فاروق کے سوال کا جو جواب دیا وہ بھی کئی اعتبار سے محل نظر ہے۔ افغانستان پر گفتگو کا پہلا تقاضا یہ تھا کہ غامدی صاحب افغان عوام کے خلاف امریکا کی 20 سالہ جارحیت کی مذمت کرتے۔ اسے جارح قرار دیتے۔ اس کی طاقت پرستی کو ناقابل قبول قرار دیتے۔ افغانستان پر گفتگو کا دوسرا تقاضا یہ تھا کہ طالبان کی تاریخ ساز فتح کی تعریف کی جاتی۔ ان کے جذبہ ٔ حریت کو سراہا جاتا۔ ان کی مزاحمت کو خراج تحسین پیش کیا جاتا اور طالبان کے جہاد کو پوری امت کے لیے نمونہ عمل باور کرایا جاتا۔ غامدی صاحب نے یہ سب کرنے کے بجائے افغانستان میں امریکا کی ننگی جارحیت کو ’’ایڈوینچر‘‘ یا مہم جوئی قرار دے ڈالا۔ یہ امریکا کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی شرمناک کوشش ہے۔ مہم جوئی اور جارحیت کے مقاصد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جارحیت کا مقصد کسی کو غلام بنانا، اس کی آزادی کو سلب کرنا ہوتا ہے اور اس پر اپنا نظام مسلط کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مہم جوئی ایک ’’پرامن سرگرمی‘‘ ہوتی ہے۔ اس کے تحت پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کیا جاتا ہے۔ صحرائوں کو عبور کیا جاتا ہے۔ سمندر سے پنجہ آزمائی کی جاتی ہے۔ خطرات کا سامنا کیا جاتا ہے۔ خوف پر قابو پایا جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غامدی صاحب نے امریکا کی ننگی جارحیت کو ’’مہم جوئی‘‘ قرار دے کر امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے۔ کیا غامدی صاحب کو معلوم نہیں کہ امریکا نے گزشتہ 20 سال کے دوران افغانستان میں دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا ہے۔ امریکی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کے اندر خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ اس خانہ جنگ میں 75 ہزار افراد مارے گئے ہیں۔ پاکستان کا 120 ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا ہے۔ امریکا نے ہماری آزادی اور خودمختاری کو پامال کیا ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود غامدی صاحب کے نزدیک امریکا جارح اور شیطانی قوت نہیں۔ وہ صرف ایک ’’مہم جو‘‘ طاقت ہے اور غامدی صاحب کے بقول بڑی طاقتیں اکثر ایسی مہم جوئی کرتی رہتی ہیں۔ غامدی صاحب نے اس حقیقت کو بھی جھٹلادیا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں شکست ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس ان کا خیال ہے کہ شکست امریکا کو نہیں افغان عوام کو ہوئی ہے۔ ارے بھائی اس وقت تو خود مغرب کے دانش ور، تجزیہ نگار، سیاست دان اور صحافی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ امریکا کو افغانستان میں شکست ہوگئی۔ خود امریکا کے صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں اپنے ملک کی شکست کو یہ کہہ کر تسلیم کیا ہے کہ وہ افغانستان کی جنگ کو پانچویں صدر کو منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ مگر غامدی صاحب امریکا سے بھی بڑے امریکی ایجنٹ ہیں۔ وہ امریکا کی شکست پر پردہ ڈال رہے ہیں اور افغان عوام کی بے مثال اور تاریخ ساز فتح کو شکست کا روپ دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ چوں کہ افغان عوام 21 ویں صدی میں بھی اپنی حکومت خود منتخب نہیں کرسکتے اس لیے شکست ان کو ہوئی ہے امریکا کو نہیں۔
غامدی صاحب کا ارشاد ہے کہ حکومت تو وہی جائز ہے جو لوگوں کی رائے اور مشورے سے قائم ہو۔ غامدی صاحب نے یہاں شاید شعوری طور پر جمہوریت کی اصطلاح استعمال نہیں کی مگر دراصل وہ کہہ یہی رہے ہیں کہ اصل حکومت تو وہ جمہوری حکومت ہے جو لوگوں کے ووٹوں سے قائم ہو۔ یہ بات بھی غامدی صاحب کی مغرب پرستی کا مظہر ہے ورنہ اسلامی تاریخ کے تجربے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی تاریخ میں خلافت راشدہ کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر عام بیعت ہوئی۔ سیدنا عمرؓ کو سیدنا ابوبکرؓ نے نامزد کیا۔ سیدنا عثمانؓ پانچ لوگوں میں سے منتخب ہوئے اور ان پانچ لوگوں کو سیدنا عمرؓ نے نامزد کیا تھا۔ سیدنا علیؓ سے لوگوں نے خود خلیفہ بنے کی درخواست کی۔ اسلام میں حکمرانی کے یہ چاروں ماڈل اسلامی ماڈل ہیں۔ اسلام میں بلاشبہ مشورے کا حکم ہے مگر مشورہ نظام بنانے کے لیے نہیں کیا جاتا۔ نظام تو اللہ اور اس کے رسول نے طے کردیا البتہ مسلمان اس نظام کو باہمی مشورے سے چلانے کے پابند ہیں۔ مشورے کے سلسلے میں یہ بات بھی عیاں ہے کہ مشورہ ہر کس و ناکس سے نہیں کیا جاتا۔ نبی اکرمؐ کے عہد مبارک میں ایک لاکھ صحابہ تھے مگر رسول اکرمؐ صرف دس بارہ صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشورہ ’’صاحب الرائے‘‘ افراد سے کیا جاتا ہے۔ اس سے بھی بہتر لوگ وہ ہوتے ہیں۔ جو ’’صائب الرائے‘‘ ہوتے ہیں۔ عام لوگ تو مشورہ دینے کے اہل ہی نہیں ہوتے اس لیے ان سے مشورے کا کوئی جواز ہی نہیں۔ عوام کی اکثریت کا خیال مغربی جمہوریت کا خیال ہے۔ اس جمہوریت کی اوقات یہ ہے کہ ایک انتخاب میں تین جماعتیں حصہ لیتی ہیں۔ ایک جماعت 34 فی صد ووٹ حاصل کرتی ہے اور دو جماعتیں الگ الگ 32 فی صد ووٹ حاصل کرتی ہیں۔ مگر فتح 34 ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو حاصل ہوتی ہے۔ حالاں کہ 64 فی صد عوام اس کے خلاف رائے دے چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے اقبال نے مغربی جمہوریت پر شدید اعتراضات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے۔

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
٭٭
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
مگر غامدی صاحب ان باتوں پر غور ہی نہیں کرتے۔ وہ صرف مغرب کے تھوکے ہوئے نوالوں کو چباتے رہتے ہیں اور اس عمل پر فخر کرتے ہیں۔
منیب فاروق نے ایک سوال یہ کیا کہ افغانستان میں شریعت کے نفاذ کی بات کی جارہی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کے حوالے سے بھی سوال کیا جاتا ہے کہ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ ہے اور آئین میں لکھا ہوا ہے کہ ملک میں ایسی قانون سازی نہیں ہوگی جو اسلام سے متصادم ہو۔ تو کیا ہمارے یہاں جو نظام چل رہا ہے کیا اس کے تحت ہم اللہ کی نافرمانی کررہے ہیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے مگر ہمارا حکمران طبقہ اسلام کو آئین سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔ چناں چہ ہماری معیشت سود پر کھڑی ہے اور یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔ غامدی صاحب نے مذکورہ سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ریاست لوگوں کی ذاتی پسند اور ناپسند پر اثر انداز ہونے کی مجاز نہیں۔ لوگ کون سا لباس پہنیں گے، فنون لطیفہ کے بارے میں ان کا کیا نقطہ ٔ نظر ہوگا یہ بات ریاست طے نہیں کرے گی۔ افسوس کہ یہ باتیں بھی غامدیت کا شاخسانہ ہیں۔ اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اسلام صاف کہتا ہے لباس ساتر ہونا چاہیے۔ چناں چہ مسلم معاشرے میں غیر ساتر لباس کو ریاست روکے گی۔ اسی طرح رسول اکرمؐ سے کسی نے امرا القیس کی شاعری کے بارے میں رائے معلوم کی۔ رسول اکرمؐ نے کہا وہ نابینا مضامین کو بینا بنادیتا ہے مگر وہ جہنمیوں کے سرداروں میں سے ایک سردار ہوگا۔ یہاں رسول اکرمؐ نے امرا القیس کے فن کی تعریف کی ہے مگر اس کے اخلاقی پہلو کی مذمت کی ہے۔ فنون لطیفہ بالخصوص ادب کے بارے میں اسلامی ریاست رسول اکرمؐ کے مذکورہ فرمان کی پابند ہوگی۔