!لو جہاد کے بعد لینڈ جہاد کا شوشا

326

سرینگر کشمیر
یوں تو بھارت میں مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے انسانیت دشمنوں کی جانب سے کیے جاتے ہیں جن میں لو جہاد، سول سروسز جہاد اور اب لینڈ جہاد بھی بڑے پروپیگنڈوں میں سے ہے۔ اس کے پیچھے منظم طریقے سے سیاست دانوں کی آشرواد سے بھارتی مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی اصطلاحات گڑھ کر ان کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں۔ ویسے تو بھارت کا قانون بھارتی شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ آپ کسی مذہب کو اختیار کر سکتے ہیں اور رضا مندی کے ساتھ کوئی کسی سے بھی شادی اور کہیں پہ بھی رہ سکتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملکی دستور کو بالاے طاق رکھ کے مسلمانوں کو لو جہاد کے نام پر ہجومی تشدد کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔ اور اب آج کل ایک نئی اصطلاح مسلمانوں کے خلاف گھڑی گئی ہے وہ لینڈ جہاد ہے۔ اس میں مسلمانوں پہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمان ہندوئوں کی زمینیں خرید کر ہندوئوں کے لیے زمین تنگ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں دہلی میں اجیت سوامی کی قیادت میں حج ہائوس کی تعمیر نو کے خلاف ایک احتجاج کیا گیا۔ جس میں احتجاجی شرکاء کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ مسلمان ایک حج ہائوس کی تعمیر کی آڑ میں لینڈ جہاد کر رہے ہیں۔ تاہم اس احتجاج کے متعلق عام آدمی پارٹی کے رہنما عبدالرحمن نے کہا کہ یہ احتجاج ایک سیاسی سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ یعنی اب یہ انسانیت کے دشمن مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات کی تعمیر سے بھی خائف نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ جموں کشمیر میں بھی پیش آیا جس میں بھارتیا جنتا پارٹی کے ایک لیڈر اور جموں کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلیٰ کویندر گپتا نے گزشتہ سال روشنی ایکٹ کے تحت زمین کی منتقلی کو لینڈ جہاد قرار دیا تھا۔ اور مسلمانوں پہ الزامات کی بارش کر کے دنیا کو ایک دوسرے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ لیکن کویندر گپتا کو یہ بیان اس وقت خود اپنے ہی گلے پڑا جب ایک نئے انکشاف میں خود بھاجپا لیڈر نے ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۷ء تک جموں میں اراضی پر ناجائز قبضہ کر رکھا تھا۔ اس انکشاف کو طشت از بام کرنے والے جموں کے ایک وکیل شیخ شکیل کی جانب سے دائر کی گئی آر ٹی آئی کے جواب میں پتا چلاہے کہ جموں کی بلوال تحصیل میں کویندر گپتا اور ان کے دو ساتھی شبھاش شرما اور شیو رتن گپتا نے مشترکہ طور پر ۲۳؍ کنال زمین کو قبضہ کر رکھا تھا۔
شرما خود ایک آزاد کونسلر ہیں۔ جبکہ ۲۰۱۰ میں کویندر گپتا جموں شہر کے میئر تھے۔ تاہم دونوں نے ان خبروں کو مسترد کر دیا ہے۔ روشنی ایکٹ کیا ہے کو میں ایسے سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ ۲۰۰۱؍ میں فاروق عبداللہ کی سرکار نے جموں کشمیر اسٹیٹ لینڈ ایکٹ کا قانون بنایا تھا جس کے تحت کئی سال سے سرکاری اراضی پر غیر قانونی طور پر قابض افراد کو متعلقہ محکمے کی جانب سے مقرر کردہ رقوم کی ادائیگی کے عوض ملکیت کے حقوق حاصل ہو گئے تھے اس کا مقصد جموں کشمیر میں ہائڈل پاور پروجیکٹ بنانے کے لیے ۲۵؍ ہزار کروڑ کی خطیر رقم جمع کرنا تھا تاہم ۲۰۱۴ء میں کامپٹرولر آڈیٹر جنرل (comptroller auditor general) کی جانب سے اس اسکیم کو نافذ کرنے میں بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا۔ اس کے بعد ۲۰۱۸ ؍میں تب کے گورنر ستیہ پال ملک نے اس قانون کو ختم کر دیا تھا۔ جبکہ ستمبر ۲۰۱۹؍ میں انہوں نے اینٹی کرپشن بیورو کو روشنی ایکٹ کے تحت اراضی کی منتقلی کی تحقیقات کا حکم دیا جبکہ گزشتہ سال ہی ہائی کورٹ نے عرضی کی سنوائی میں روشنی ایکٹ کو غیر قانونی غیر آئینی اور غیر مستحکم قرار دے کر کیس کو سی بی آئی کو سوپنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد حکومت نے روشنی ایکٹ کے تحت لیے گئے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا اور متعلقہ اراضی پر دیے گئے مالکانہ حقوق کو بھی منسوخ کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے گزشتہ سال ان افراد کی فہرست جاری کی گئی جن میں کئی سرکردہ سیاست دانوں کے نام شامل ہیں۔ ان میں فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، کانگریس لیڈر تاج محی الدین، محبوبہ مفتی شامل ہیں۔ جن پر اس ایکٹ سے بے جا فائدہ اٹھانے یا پھر جنگلات کی اراضی پر ناجائز قبضہ کرنے یا پھر تجاوزات کھڑا کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ تاہم جموں کے ڈویژنل کمشنر کے دفتر کی ویب سائٹ سے وہ فہرست جلد ہی ہٹا دی گئی تھی جس میں کوندر گپتا کا نام شامل تھا۔ جبکہ بھاجپا نے عدالتی فیصلے اور اس کی روشنی میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو اپنی جیت قرار دیا تھا اور اسے لینڈ جہاد کے خلاف سرجیکل اسٹرائک قرار دیا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بھاجپا اور ہندتوا جماعتوں نے جموں میں اس ایکٹ کے ذریعے ہندو اکثریت کو تبدیل کرنے کی سازش قرار دی تھی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق اس ایکٹ کے تحت پورے جموں کشمیر میں چھ لاکھ چار ہزار کنال سے زائد اراضی کی نشاندہی ہوئی تھی۔ لیکن اس میں اصل تبادلہ تین لاکھ پندرہ ہزار جموں میں اور تینتیس ہزار کنال کا تبادلہ کشمیر میں ہوا۔ تاہم حکومت نے گزشتہ سال ۴؍ دسمبر کو ہائی کورٹ میں درخواست میں اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس کی وجہ جموں کے لوگ اس ایکٹ سے منسوخی سے ناخوش تھے کیوں کہ اس ایکٹ سے زیادہ فائدہ لینے والے جموں ہی کے لوگ ہیں۔ جبکہ این سی نے گزشتہ سال حکومت کے فیصلے پر یوٹرن کی وجہ یہ بتائی کیوں کہ جموں میں بھاجپا اور آر ایس ایس کے لوگوں نے اس قانون کے تحت زمین حاصل کی ہے۔ واضح رہے لگ بھگ ۳۳ ؍ہزار لوگوں نے اس قانون کے تحت زمین حاصل کی جن میں سے اب تک اکتالیس سو جموں اور ۲۴ سو سے ز ائد نام کشمیر سے سامنے آئے ہیں اس طرح سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح سے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق عمل میں لایا جاتا ہے۔ جہاں ان حکمرانوں کو اپنی کرسیوں کے گرنے کا خطرہ رہتا ہے وہاں یہ قانون ہی کو اپنی خواہشات اور مفادات کے تابع کر دیتے ہیں۔ بھارت میں ملکی سطح پر مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی خامی کو اتنا اُچھالا جاتا ہے کہ جیسے دنیا میں سب سے بڑے گناہ گار مسلمان ہی ہیں۔ بلکہ ایک انگریز کہاوت کے مطابق give dog a bad name and kill him یعنی مسلمانوں کے متعلق الزامات کو اتنا اُچھالو کہ وہ واجب القتل تسلیم کیے جائیں۔ بلکہ اب تو میڈیا بھی مسلمانوں کے خلاف باضابطہ میڈیا ٹرائل چلاکے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اسی طرح سے کویندر گپتا نے بھی اس روشنی ایکٹ کو لینڈ جہاد کا نام دے کے مسلمانوں کے خلاف بنانے کی کوشش کی تھی۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت کے حکمرانوں کو حقائق کو تسلیم کرنے کی کوشش کرنی چاہے۔ اور اُن لوگوں کی لگام کسنے کی بھی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو لو جہاد اور اب لینڈ جہاد کے نام پر جینے کا حق چھیننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔