کووڈ 19 کی مصیبت حکمرانوں کی راحت (آخری حصہ)

294

یہ بھی حقیقت ہے کہ اسکول والے خوب کماتے ہیں لیکن اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی بندش کے طریقہ کار نے جو نقصان پہنچایا ہے وہ اربوں روپے کا نہیں ہے نسلوں کی تباہی کا ہے۔ اس کام کے ذریعے طلبہ کے مستقبل یعنی دراصل ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیل کھیلا گیا ہے۔ دو سال سے طلبہ اور والدین گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ بچے اسکول جائیں گے یا نہیں امتحان ہوں گے یا نہیں، خبردار کسی نے تعلیمی ادارہ کھولا۔ گویا پھانسی ہی لگادیں گے۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اور عملے کو تو زیادہ فرق نہیں پڑا ان کی تنخواہیں سرکاری خزانے سے ملتی رہیں لیکن پرائیویٹ اسکولز نے تو سرکار کا بنیادی کام اپنے سر لے رکھا ہے وہ اس سے پیسے بھی کماتے ہیں اور زیادتی بھی کرتے ہیں۔ ان کے اساتذہ اور عملے کو بھی تو تنخواہ چاہیے جبکہ بچوں کے والدین نے فیسیں روک لیںپورے ملک میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہی قوم کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں لیکن سرکار نے اس پر بھی حملہ کردیا۔ کوئی پالیسی نہیں ہیں صرف لڑائی جھگڑے سے دکھاوے کے معرکے ہوتے رہے۔ وفاق نے اسکول کھولنے کی بات کی تو صوبے نے بند کردیے، صوبے نے کھولنے کی بات کی تو وفاق نے بندش کردی۔ اگلے ہفتے کھولیں گے، پھر اگلا ہفتہ آیا تو لاک ڈائون سخت کردیا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ تین پرچوں پر میٹرک اور انٹر کے امتحانات لیے گئے پھر مژدہ سنایا گیا کہ 33 نمبر کی خیرات دے کر بچوں کو پاس کردیں گے۔ کوئی بچہ فیل نہیں ہوگا۔ اور اس پر واہ واہ کی قوالی شروع ہوگئی۔ لیکن کووڈ 19 کی مصیبت میں راحت پانے والی سرکار کو اندازہ نہیں ہوا کہ ان دو برسوں میں اسکول سے کالج اور کالج سے پروفیشنل کالج پہنچنے والی پوری نسل کو امتحانات، پرچے اور نتائج کے نظام سے ناآشنا کردیا۔ یہ نسل جہاں جائے گی تباہی پھیلائے گی۔ سرکار کا کیا گیا۔ اس نے تو مصیبت سے خوب راحت سمیٹی۔ اب ذرا کووڈ 19 سے بچنے کے لیے سرکار کی جدوجہد یا اقدامات اور تضادات کا جائزہ لے لیں۔ حکومت عوام کے تحفظ میں کس قدر سنجیدہ ہے۔ اور عوام کو سہولت دینے میں بھی کمائی کیسے کررہی۔
ایک شاپنگ سینٹر جانا ہوا۔ ایک دکان میں کپڑا واپس کرنا تھا۔ چھے یا سات قطاریں تھیں ہر قطار میں دس پندرہ لوگ تھے۔ پتا نہیں چل رہا تھا کہ آگے والے کا ہاتھ کائونٹر پر ہے یا پیچھے والے کا۔ گردن آگے والے کی اور ہاتھ پیچھے والے کا ہوتا تھا۔ اس پر یاد آیا کہ گیٹ پر لکھا تھا ماسک کے بغیر کوئی خدمت نہیں فاصلہ رکھیں۔ ایک دوسرے سے چھ فٹ دور رہیں لیکن دکان میں آنے کے بعد پتا چلا کہ یہ چھ فٹ ایک دو انچ کے برابر ہوتے ہیں۔ لیکن خیر لاک ڈائون 6 بجے اور 8 بجے کاروبار بند ہوتا ہے تو لوگ بے چارے جلدی میں ہیں اس لیے یہ غلطی معاف۔ مگر مغرب کے لیے مسجد گئے اسی شاپنگ سینٹر کے تہہ خانے میں مسجد ہے وہاں باقاعدہ 6 فٹ پر نشان لگے ہیں اور وہاں 6 فٹ کا مطلب 6 فٹ ہی ہے اور امام اور نمازی بس اللہ کے سامنے کووڈ کا خوف کرتے ہوئے نیت کی میں نے تین رکعت نماز کی واسطے اللہ کے منہ میرا کعبے کی طرف مع ایس او پیز ماسک اور سماجی فاصلہ (نعوذ باللہ) یہ خدائے بزرگ و برتر کو براہ راست کھلا چیلنج دیا جارہا ہے کاروبار میں کوئی ایس او پی نہیں مسجد میں شدت کے ساتھ عمل ہے اور یہی کووڈ19 کی پابندیوں کا سب سے بڑا نشانہ ہے یعنی مذہب، پورے ملک میں گزشتہ سال 2020ء اس اعتبار سے تباہ کن ثابت ہوا۔ لوگ صفوں میں خلا چھوڑنے لگے، چہرے کو ڈھانپ کر ماسک میں نمازیں پڑھنے لگے، مسجدیں اور حرم سب ویران ہوگئے۔ اور کس وجہ سے… اللہ کے خوف کے بجائے کووڈ کا خوف؟؟ نہیں کووڈ کا بھی نہیں ان طاقتوں کا جو کووڈ سے خود بھی فائدہ اٹھارہی تھیں اور عوام کو قتل کررہی تھیں۔ تضاد صرف مسجد و مارکیٹ میں نہیں تھا، بینک میں6فیٹ کا مطلب دو ڈھائی فیٹ ہے وہاں نشان بھی دو ڈھائی فیٹ پر لگے ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سرکاری اجلاس، بڑے ممالک کے اجلاس، بڑے بڑے سربراہوں کے ماسک اور فاصلے کے بغیر اجلاس، آزاد کشمیر کے انتخابات حکمرانوں اور اپوزیشن کے زبردست جلسے، یورو کپ فٹ بال، یو ایس اوپن ٹینس کون سی جگہ سے جہاں اختلاط اپنی حدوں کو پار نہیں کرگیا۔ لیکن خبردار اسکول، مارکیٹ اور مسجدیں نہ کھولنا… دلائل بہت سارے دیے جاتے ہیں کہ انہوں نے تو ویکسین لگوا رکھی ہے لیکن یہاں تو سختی سے ہدایت ہے کہ ویکسین کے باوجود ماسک سماجی فاصلہ اور سینی ٹائزر وغیرہ لازمی ہیں۔
جہاں تک عوام کی جان بچانے اور ان کے تحفظ کی فکر کا تعلق ہے تو حکمران اس فکر میں نہایت مستغرق دکھائی دیتے ہیں، کسی کو کووڈ سے نہیں مرنے دیں گے اس کی جدوجہد جاری ہے۔ لیکن لوگ کتے کے کاٹے سے مر جائیں، اسپتالوں میں اس کی ویکسین نہ ہو، دوائیں نہ ملیں، ڈاکٹر نہ ملیں، تو کوئی بات نہیں کسی کو کووڈ سے نہیں مرنے دیں گے۔ ڈینگی پھیل رہا ہے لیکن ایس او پیز صرف کووڈ کے چلیں گے اور صرف تعلیم، مذہب اور کاروبار پر، اسپتالوں کی صفائی کی ضرورت نہیں، بنیادی صحت کے مراکز کی ضرورت نہیں، بلکہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اگر پیمائش ہلاکت خیزی کی بنیاد پر کی جائے تو کووڈ بہت پیچھے رہ جائے، یہ بات بھی لوگ سمجھ چکے ہیں کہ بیماری ہے اور اس کے پیچھے ایجنڈا بھی، لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ سب کو سب کچھ ماننا پڑے گا۔ جو نہ مانے اسے نکو بنادیا جائے گا اور ایسا ہو بھی رہا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی اب کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ سب کی دم کٹی ہوئی ہے لہٰذا دوسرے کی دم بھی کٹوادی جائے گی۔ ہلاکت خیزی کے اعتبار سے بھی غور کریں۔ صرف غور… یقین کریں نہ اپنے فیصلوں سے پھریں… گزشتہ ماہ کی ایک سروے رپورٹ ہے کہ آلودہ پانی کینسر، ذیابیطس سمیت 80 فی صد بیماریوں کا سبب ہے۔ ہر سال 30 لاکھ پاکستانی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ڈھائی لاکھ بچوں سمیت، 12 لاکھ افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے، اسے پھر پڑھیں ۔ ہر سال 30 لاکھ پاکستانی متاثر ہوتے ہیں ڈھائی لاکھ بچوں سمیت 12 لاکھ افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اسے بار بار پڑھیں اور یاد کرلیں۔ ویسے یاد تو یہ بھی کرنا ضروری ہے کہ ملک میں 82 فی صد پانی انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ یہ باتیں ہم نے اپنی جانب سے نہیں لکھیں۔ ماہر ڈاکٹروں نے بتائی ہیں کسی کو اختلاف ہے تو ان ڈاکٹروں کی اسناد چیک کرلیں۔ ان ڈاکٹروں نے آلودہ پانی کی سنگینی کے پیش نظر اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ سروے 27 اگست کو شائع ہوا ہے۔ اب مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ کیا کووڈ سے اب تک30 لاکھ پاکستانی متاثر ہوئے ہیں۔ کیا کووڈ سے ڈھائی لاکھ بچوں سمیت 12 لاکھ افرادکی موت واقع ہوئی ہے، کیا کووڈ 80 فی صد بیماریوں کا سبب ہے۔ اگر ڈاکٹروں کے مطابق آلودہ پانی 80 فی صد بیماریوں کا سبب ہے تو پھر آلودہ پانی جہاں فراہم کیا جارہا ہے وہاں لاک ڈائون کردیا جائے۔ جب تک پانی صاف نہیں ہوجاتا اور آلودگی ختم نہیں کردی جاتی لاک ڈائون جاری رکھا جائے۔ اس کا جواز تو سمجھ میں آتا ہے 12 لاکھ افراد کی ہلاکت پر تو پورا ملک بند کردینا بھی سمجھ میں آتا ہے۔ جس چیز سے زیادہ ہلاکتیں اور زیادہ لوگ متاثر ہورہے ہوں اس کی روک تھام کو اہمیت ملنی چاہیے۔