قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ

522

قسم ہے اْن (گھوڑوں) کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں۔ پھر (اپنی ٹاپوں سے) چنگاریاں جھاڑتے ہیں۔ پھر صبح سویرے چھاپہ مارتے ہیں۔ پھر اس موقع پر گرد و غبار اڑاتے ہیں۔ پھر اِسی حالت میں کسی مجمع کے اندر جا گھستے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ اور وہ خود اِس پر گواہ ہے۔ اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے۔ تو کیا وہ اْس حقیقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ (مدفون) ہے اْسے نکال لیا جائے گا۔ اور سینوں میں جو کچھ (مخفی) ہے اْسے برآمد کر کے اس کی جانچ پڑتال کی جائے گی؟۔ یقینا اْن کا رب اْس روز اْن سے خوب باخبر ہوگا۔ (سورۃ العادیات:1تا11)

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے، نبی کریمؐ نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ اس میں لوگوں کی اس طرح چھان بین کی جائے گی کہ صرف گھٹیا اور ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کے وعدوں اور امانتوں میں کھوٹ پیدا ہو جائے گی اور وہ آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف کر یں گے اور اس طرح ہو جائیں گے۔ راوی نے اپنی انگلیوں میں تشبیک ڈالی۔ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ایسے حالات سے نکلنے کی صورت کیا ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اچھے کام کرنا، برے کاموں سے بچنا اور مخصوص لوگوں پر توجہ دینا اور عام لوگوں کے معاملات کو چھوڑ دینا۔ (مسند احمد)