لسانیت ،امتیازی پالیسیاں ،ناانصافیاں اور کرپشن کراچی کی بدحالی کا سبب ہیں

484

کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید) کرپشن، لسانیت، امتیازی پالیسیاں اور ناانصافیاں کراچی کی بدحالی کا سبب ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف صحافی ہارو ن رشید، ڈاکٹر فاروق ستار، چیئرمین اپیرئل فورم جاوید بلوانی، اور پی پی رہنما این ڈی خان نے جسارت کی جانب سے ایک سوال کہ “ملک کو آمدنی کا 70 فیصد مہیا کرنے والا کراچی بدحال کیوں ہے؟ کے جواب میں کیا۔ ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کو 30برس میں جب جب موقع ملا اس نے ہر حکومت سے یہی سوال کیا کہ ملک کو آمدنی کا 70 فیصد مہیا کرنے والا کراچی بدحال کیوں ہے، اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ کراچی کی صورتحال تبدیل کرنے کیلیے ضروری ہے کہ اس کی آمدنی کا بہت کچھ نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ کراچی پر بھی خرچ کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ایم کیو ایم نے عارضی مفادات کو سمیٹتے ہوئے ہر موقع کو گنوا دیا اورکراچی کے عوام کے بڑے مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی، جس میں مردم شماری بھی شامل ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک خالی ہو گیا ہے۔شہر کے مسائل کے حل میں ایم کیو ایم اگر کامیاب نہیں ہو ئی تو اس کی جگہ کو کوئی پُر کرنے والا بھی اب تک سامنے نہیں آیا۔ 2018ء کے الیکشن میں کامیاب ہو نے والی پی ٹی آئی نے بھی شہر کو کچھ نہیںدیا بلکہ شہر کے مسائل میں بے پناہ اضافہ اور کراچی کے عوام کو احساس ِ محرومی میں مبتلا کر دیا ہے۔ معروف صحافی ہارو ن رشید نے اپنے جواب میں کہا کہ میں تو پہلے ہی متعدد مرتبہ یہ کہہ چکا ہوں کہ ایم کیو ایم 30 برس سے ہر حکومت کا حصہ رہی ہے اور اکثر اپنے ذاتی مفادات کیلیے دلہن کی طرح روٹھتی رہتی تھی اور جب اس کے مطالبے پورے ہوجاتے تھے پھر مان جاتی تھی۔ یہ وہ صورتحال نہیں ہوتی جس میں کوئی عوامی کام کیا جائے۔ کراچی کے علاقے صدر کے بازاروں سے ایف بی آر کو سالانہ 8 سے 9 ارب روپے کا ٹیکس وصول ہوتا ہے لیکن وہاں کی ہر سڑک ٹوٹی ہوئی ملے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار 1972 تا 1977 میں شہری سندھ کی سیاست کچھ اس طرح پروان چڑھی جس میں سندھی زبان کا بل اور اس پر لسانی فسادات کو پروان چڑھایا گیا۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سندھ کے شہریوں کیلیے کوٹہ سسٹم، تعلیمی اداروں میں داخلے میں دشواریاں، نوکریوں میں کراچی، حیدرآباد، سکھر کے لوگوں پر عملی طور پرپابندی تھی۔ بھٹو اور اردو بولنے والے دانشوروں کے درمیان مسئلے کے حل کیلیے مذاکرات ہوئے اور معاملہ 60 فیصد دیہی اور 40 فیصد شہری کوٹے پر حل ہوگیا۔ بدقسمتی سے یہ فارمولہ سیاست کی نذر ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے نام پر استعمال ہونے والوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کراچی کو حقوق کب دلائیں گے؟ متحدہ نے کراچی میں اردو بولنے والوں کے 40 سال کا سفر بے نتیجہ بنا دیا ہے آج بھی کر اچی والوں کے مطالبات وہی ہیں نوکریاں اور داخلے ورنہ الگ صوبہ۔ کراچی پاکستان کا تجارتی، صنعتی اور معاشی حب ہے اور اس کی ترقی سے ہی ملک ترقی کرے گا لیکن ایم کیو ایم کر اچی والوں کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور سے ناکام ہے۔ چیئرمین پاکستان اپیرئل فورم جاوید بلوانی نے جواب میں کہا کہ کراچی کے عوام اور صنعتکاروں کو ہر سطح پرنظر انداز کیا جارہا ہے، کراچی پر ہر آنے والے دن کے ساتھ ٹیکس میں اضافہ اور سہولیات میں کمی ہورہی ہے، عوام ہوں یا تاجر و صنعتکار ہر طرف سے کراچی کو مسائل سے دوچار کیا جاتا ہے، کراچی ایکسپورٹ انڈسٹریز کیلیے رعایتی گیس نرخ کے حوالے سے وزارت توانائی اور پیٹرولیم ڈویژن کا مبہم کردار ہے جس سے یہاں سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔ وفاقی کابینہ کی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی نے 16 اگست 2021ء کو ایکسپورٹ انڈسٹریز کیلیے رعایتی گیس (آر ایل این جی) اور بجلی کے نرخ کو جاری رکھنے کی منظوری دی جس کی وفاقی کابینہ نے 24 اگست 2021ء کو توثیق کی، جس کے تحت آر ایل این جی کے نرخ 6.5 ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو بشمول تمام چارجز برائے سال 2021-22 کا نفاذ ایکسپورٹ انڈسٹریز کیلیے پاکستان بھر میں یکساں طور پر کیا گیا تاہم وزارت توانائی پیٹرولیم ڈویژن نے اس ضمن میں ٹیرف کے نفاذ کیلیے صرف سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز کمپنی کو اپنا خط ارسال کیا اور سوئی سدرن گیس کمپنی کو کابینہ کے فیصلے کے نفاذ کیلیے کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا۔ کراچی کی صنعت پر ان اضافی نرخوں کے باعث کراچی کی ایکسپورٹ انڈسٹریز کس طرح پنجاب کی ایکسپورٹ انڈسٹریز کے ساتھ مسابقت کر پائے گی جہاں آر ایل این جی 6.5 ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے رعایتی نرخ پر سپلائی کی جارہی ہے؟ کراچی میں انڈسٹریز کو چلانے کی لاگت پہلے ہی پنجاب سے زیادہ ہے۔ پانی کے نرخ 525 فیصد زیادہ ہیں، کم از کم اجرت25 فیصد زیادہ ہے اور اب آر ایل این جی 95 فیصد سے زائد نرخ پر ملے گی۔ سیکورٹی اور ٹرانسپورٹیشن چارجز بھی انڈسٹری کو چلانے کی لاگت میں اضافہ کرتے ہیں۔ کراچی کے ایکسپورٹرز کو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید وفاقی اور صوبائی حکومتیں کراچی کی ایکسپورٹس اور انڈسٹری کو تباہ کرنے کے درپے ہیں جو ملک کیلیے 60 فیصد ریونیو اور صوبہ سندھ کیلیے 95 فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے۔ ایسی امتیازی پالیسیاں اور سخت اقدام کراچی کو درپیش رہے تو کراچی کی ایکسپورٹ انڈسٹریز بیرون ملک منتقل ہونے پر مجبور ہوجائیں گی اور کراچی بدحال ہوتا چلا جائے گا۔ پی پی پی کے رہنما این ڈی خان نے جواب میں کہا ہے کہ پاکستان اور فوج کے خلاف بولنے والی لسانیت کے لبادے میں لپٹی تنظیم نے عوام کی کبھی خدمت نہیں کی اور ملک کے عوام اور حکومت سے اپنا حق نہیں مانگا ہے، ایم کیو ایم نے جرائم اور سیاست کو ایک ساتھ چلانے کی کو شش کی اسی لیے آج عوام نے ان کو مسترد کردیا اور ایم کیو ایم مختلف دھڑوں میں بکھر چکی ہے۔ وفاق کراچی کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھنا چھوڑے یہ سندھ کا دارالحکومت بھی ہے اور پاکستان کا معاشی حب بھی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ غلطیوں سے سیکھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا اصل امتحان ہوتا ہی اس وقت ہے جب آپ کے پاس اختیار بھی ہو اور آپ شریک اقتدار بھی ہوں اور ایم کیو ایم نے یہ دونوں ہو نے کے باوجود کراچی کو ہر طرح کی سہولت سے محروم کردیا ہے۔ اس کے برعکس ایم کیو ایم نے تشدد اور سیاست، جرائم اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلانے کی کوشش کی جس سے کراچی تباہ ہوگیا۔ جنہوں نے ہتھیار اٹھائے یہ ان کیلیے بھی سبق ہے اور جنہوں نے ہتھیار دینے میں سہولت کاری کی وہ بھی ان کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔