پاکستان پر امریکی دبائو

588

امریکی حکومت، اس کے تھنک ٹینکس اور یورپی اتحادی افغانستان سے مکمل فوجی انخلا اور طالبان کے کنٹرول کے صدمے سے باہر نہیں آسکے ہیں۔ جب امریکا نے مجبوراً افغان طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا اور ایک معاہدے تک پہنچ گیا جس کے مطابق جولائی 2021ء تک امریکا اپنے ناٹو اتحادیوں کے ہمراہ اپنی فوج نکال لے گا اور طالبان نے اس بات کی ضمانت دی کہ وہ کسی گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ ان کی سرزمین پر کسی اور ملک میں عسکری حملے کے لیے استعمال ہو، قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب ہی اس بات کی علامت تھی کہ امریکا اب سپرپاور کی حیثیت کھوچکا ہے اور افغان طالبان فاتح ہیں جنہوں نے بغیر کسی طاقت کی مدد کے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو شکست دے دی۔ کیوں کہ عالمی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی امور کے تحقیقی ادارے امریکا اور مغرب کے کنٹرول میں ہیں، اس لیے وہ امریکی سپر پاور کی شکست پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہے۔ ان کا خیال تھا کہ امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا اور افغان ایک دوسرے کا خون بہائیں گے اور دنیا اس کا تماشا دیکھے گی۔ لیکن اللہ کی مدد سے طالبان نے بغیر خون بہائے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا اور امریکا کی شکست کا منظر پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ اب جو بحثیں مغربی ذرائع ابلاغ میں ہورہی ہیں اس سے ان کے اضطراب اور بے چینی کا اچھی طرح اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ افغانستان سے امریکی پسپائی کے بعد عالمی سطح پر نئی صف بندی شروع ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے پاکستان پر امریکی دبائو کی نوعیت میں بھی تبدیلی واقع ہورہی ہے۔ اس دبائو کا اندازہ امریکی کانگریس کی کمیٹی میں افغانستان کے بارے میں بحث سے ہوسکتا ہے، امریکی ارکان کانگریس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا جائے۔ امریکی ’’وار آن ٹیرر‘‘ جو نائن الیون کے پراسرار حادثے کے بعد شروع ہوئی تھی جس کے تحت امریکا پوری دنیا کو لے کر افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اور اسے ایک ٹیلی فون کال پر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ کا خط ِ اول کا سپاہی قرار دے دیا گیا تھا، یہاں تک کہ پاکستان کو امریکا کا نان ناٹو اتحادی بھی قرار دیا گیا۔ اب امریکی قائدین کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ پاکستان کے کردار کے بارے میں کیا کہیں۔ ایک ہی سانس میں وہ دو متضاد باتیں کررہے ہیں۔ اس بات کو بھی تسلیم کررہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے تعاون کیا، ساتھ ہی الزامات عائد کرتے ہیں کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو پناہ دی۔ پاکستان طالبان کی سرپرستی بھی کرتا رہا اور ہمارا اتحادی بھی رہا۔ اسی متضاد ذہن کی وجہ سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کانگریس کی کمیٹی میں تلخ سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی فاتح طالبان حکومت پر اپنے مطالبات منوانے کے لیے پاکستان کو استعمال کیا جائے گا۔ کانگریس کی کمیٹی میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان سے متعلق کیا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان میں طالبان کی حکومت اس وقت تک تسلیم نہ کرے جب تک طالبان خواتین کو حقوق نہیں دیتے اور افغانستان سے نکلنے کے خواہش مندوں کو جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آنے والے دنوں میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ گزشتہ 20 برسوں میں پاکستان نے کیا کردار ادا کیا اور اب ہم مستقبل میں پاکستان کا کیا کردار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اب امریکا کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے پتے کو استعمال کرے۔ اس میں امریکا کو کس حد تک کامیابی ملتی ہے، اس کا اندازہ چند دنوں میں ہوجائے گا۔ اس لیے کہ عالمی صف بندی میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ سیاسی و عسکری سفارت کاری تیز ہوگئی ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے ایک مہینے میں دوسری بار وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے جس میں شنگھائی تعاون تنظیم میں تعاون پر بات چیت کی ہے، گفتگو میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ عالمی برادری کو افغانستان سے رابطوں میں رہنا چاہیے اور فوری طور پر افغانستان کو انسانی بنیادوں پر امداد دی جائے۔ خود امریکا کے یورپی اتحادیوں کی جانب سے بھی یہ پیغام آنے لگا ہے کہ طالبان ایک حقیقت ہیں اور ان سے رابطہ رکھنا ہوگا۔ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں میں 8 ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں کا اجلاس بھی اہم سرگرمی ہے۔ چین نے بھی جو عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی اقتصادی اور سیاسی طاقت ہے افغانستان کی نئی حکومت کی مدد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ادھر کابل میں عبوری وزیرخارجہ مولوی امیر خان متقی نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں حکومت سازی پر بے جا شرائط عائد نہ کرے۔ ہمیں اندرونی معاملات میں دخل اندازی قبول نہیں۔ افغان وزیر خارجہ نے واضح الفاظ میں یہ بات کہہ دی ہے کہ وہ عالمی برادری کی جانب سے امداد تو قبول کرلیں گے لیکن کسی دبائو میں نہیں آئیں گے۔ چند ممالک نے امداد کو اپنے مطالبات سے مشروط کیا ہے اس کے معاملے میں طالبان حکومت نے واضح موقف کا اظہار کردیا ہے۔ اس سلسلے میں مستقبل کا انحصار نئی علاقائی طاقتوں کے رویے پر ہے جن میں روس اور چین اہمیت رکھتے ہیں۔ جب کہ امریکا نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ وہ پاکستان اپنا دبائو بڑھائیں گے۔ امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے فیٹف کا دورہ پاکستان بھی اسی سلسلے کی کڑی محسوس ہوتا ہے۔ یہ موقع ہے کہ ہمارے حکمران وہ غلطی نہ کریں جو نائن الیون کے بعد کی تھی۔