وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی حکومتی پالیسیوں کے سبب نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کے سبب ہوئی ہے۔ مہنگائی سے متاثر ہونے والے عوام کو سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے چند منتخب غذائی اشیا آٹا، چینی، گھی اور دالوں پر ٹارگٹڈ زرتلافی دینے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کی خبروں نے شہریوں کو دہلا دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حوالے سے وزیراعظم اور کابینہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافے کے اصل اسباب پر کوئی توجہ دینے پر تیار نہیں ہے۔ ہم پر ایک مصنوعی استحصالی معیشت مسلط ہے اس معیشت کے تین بنیادی ستون ہیں ایک قومی اور عالمی کرنسی کا نظام ہے جس پر بحیثیت قوم ہم اپنا اختیار کھوچکے ہیں۔ یعنی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی، اس وقت ڈالر کی شرح سب سے اونچی ہوچکی ہے۔ تمام بین الاقوامی معاہدے ڈالر میں ہوتے ہیں اور جس کی وجہ سے ہر شے کی اور پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ڈالر کی شرح میں اضافہ بیرونی قرضوں کے حجم کو بھی بڑھا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ سود اور اس کی بلند ترین شرح کی لعنت ساتھ لگی ہوئی ہے۔ اس مسئلے کا حل ٹیکسوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس لیے بنیادی مسائل کو زیر بحث لائے بغیر مہنگائی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔