!سید گیلانی… ایسی چنگاری بھی یارب میرے خاکستر میں تھی

737

سید علی گیلانی محض ایک فرد کا نام نہیں، وہ حریت کی عدیم النظیر تحریک، آزادی کی بے مثال جدوجہد اور صبرو استقامت کا ایک ایسا استعارا ہیں جو ہمیشہ روشن رہے گا جس کی روشنی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہے گی، کم نہیں ہوگی۔ انسان فانی ہے وہ کسی حادثے کا شکار ہو کر، اللہ کی راہ میں شہید ہو کر یا طبعی زندگی گزار کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے اس کا بے روح جسم منوں مٹی تلے دب جاتا ہے لیکن اس کی حسنات و سیئات باقی رہتی ہیں اور برسر زمین ان کے اثرات تادیر محسوس کیے جاتے ہیں۔ آدمی کے نیک اعمال ہی کو صدقہ ٔ جاریہ کہا جاتا ہے وہ خلقِ خدا کی بھلائی کے لیے جو نیک اعمال کرکے دنیا سے رخصت ہوتا ہے اس کا ثواب اِسے مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے اور لوگ اِسے یاد کرکے اپنے دلوں کو ڈھارس دیتے ہیں۔ سید علی گیلانی بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے جو ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ان کا سب سے بڑا نیک عمل آزادی کے لیے ان کی وہ پُرعزم جدوجہد ہے جو ان کی پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہ مرنے کے بعد بھی بھارتی استعمار کے لیے خوف کی علامت بنے رہے۔ وہ ان کی میت کو لواحقین سے چھین کر لے گیا اور راتوں رات انہیں دفن کردیا۔ اس نے اہل کشمیر کو سوگ منانے اور نماز جنازہ پڑھنے سے روکنے کے لیے پورے مقبوضہ میں کرفیو لگادیا۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کردی لیکن اس کے باوجود وہ سوگ کو نہ روک سکا۔ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں آزاد کشمیر، پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ان کا سوگ منایا گیا اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پاکستان نے آزادی کے لیے ان کی بے مثال جدوجہد کے اعتراف میں سرکاری سطح پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور تین دن قومی پرچم سرنگوں رہا۔ جب کہ قومی اکابرین نے ان کے حق میں تعزیتی بیانات جاری کیے۔ بلاشبہ سید علی گیلانی اس کے مستحق تھے۔ وہ ہم پاکستانیوں سے بڑھ کر سچے اور کھرے پاکستانی تھے اور اُن پاکستانیوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ تھے جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے بھارت سے دوستی کرنے اور کشمیر کاز سے بیوفائی کرنے میں عار نہیں سمجھتے۔ بے شک سید علی گیلانی آج ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی یہ آواز بدستور فضا میں گونج رہی ہے۔
’’اسلام کے رشتے سے ہم پاکستانی ہیں
پاکستان ہمارا ہے، ہم پاکستانی ہیں‘‘
ان کی یہ آواز اہل کشمیر کے دلوں کی آواز ہے۔ اہل پاکستان کے دلوں کی آواز ہے اور بحیثیت مجموعی سب اہل اسلام کے دلوں کی آواز ہے۔ یہ آواز اس وقت تک گونجتی رہے گی جب تک اہل کشمیر اپنی منزل سے ہمکنار نہیں ہوجاتے۔
سید علی گیلانی پر کچھ لکھنا سورج کو روشنی دکھانے کے مترادف ہے۔ راقم ان کی زندگی ہی میں ان پر بہت سے کالم لکھ چکا ہے جو خود ان کی نظر سے گزرے اور انہوں نے ان کی تحسین فرمائی۔ بلکہ انعام کے طور پر پارکر کا بال پین ارسال کیا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں اور ہر قسم کی تعریف و توصیف سے بے نیاز ہوچکے ہیں تو اس تحریر کا واحد مقصد قارئین کو ان کی زندگی کے چند نمایاں گوشوں سے متعارف کرانا ہے۔ خود گیلانی صاحب نے اپنی آپ بیتی کم و بیش دو ہزار صفحات پر مشتمل تین جلدوں میں ’’ولرکنارے‘‘ کے زیر عنوان تحریر کی ہے جس کے بارے میں پروفیسر خورشید احمد کی رائے ہے کہ ’’ولر کنارے‘‘ ایک ایسی سوانح حیات ہے جس میں سید علی گیلانی کی مقصدیت سے بھرپور مگر ہنگامہ خیز زندگی کی داستان ہے جس کے آئینے میں پوری کشمیری قوم کی روح پرور اور ایمان افروز مگر نشیب و فراز سے بھرپور زندگی کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ ’’ولر کنارے‘‘ ایک کامیاب سوانح حیات ہے کہ اس میں سید علی گیلانی کی اصل شخصیت اپنی تمام تر تابانی کے ساتھ لیکن گوشت پوست کی شکل میں چلتی پھرتی دیکھی جاسکتی ہے اور ان کا ظاہر ہی نہیں باطن بھی کسی تصنع اور پردہ داری کے بغیر دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے۔ ’’ولر کنارے‘‘ اس ماڈل سے استفادے کے لیے ایک مفید مینیول (MANUAL) کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔
پروفیسر خورشید احمد نے اپنی اس رائے کا اظہار ’’ولر کنارے‘‘ کی جلد دوم کے دیباچے میں کیا ہے جس سے گیلانی صاحب کی آپ بیتی پڑھنے کا تجسس بڑھ جاتا ہے۔ یہ آپ بیتی سرینگر کے ادارہ ’’ملت پبلی کیشنز‘‘ نے شائع کی ہے اور پاکستان میں نایاب ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں یہ کتاب (تینوں جلد میں) تحفتاً ملی تھی اور ہم نے اسی زمانے میں ’’جسارت‘‘ میں اس پر تین قسطوں میں تبصرہ لکھا تھا۔ بہرکیف اب ہم اس آپ بیتی کے حوالے سے گیلانی صاحب کی ذاتی زندگی کے چند گوشے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی بے مثال سیاسی جدوجہد کا ذکر بعد میں آئے گا۔
آپ بیتی کا عنوان ’’وُلّر کنارے‘‘ رکھنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سید علی گیلانی کی پیدائش وادی کشمیر کی خوبصورت جھیل ’’ولّر‘‘ کے کنارے واقع ایک گائوں زوری منز (Zoori Manz) میں ایک مفلوک الحال سید گھرانے میں ہوئی۔ تاریخ پیدائش 29 ستمبر 1929ء، والدین نے ان پڑھ ہونے اور انتہائی تنگ دست ہونے کے باوجود علی گیلانی کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ بچہ جونہی پڑھنے لکھنے کے قابل ہوا اسے قریبی بستی کے پرائمری اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ بچہ انتہائی ذہین اور تعلیم حاصل کرنے کا غیر معمولی شوق اپنے اندر رکھتا تھا۔ چناں چہ پرائمری کی پانچ جماعتیں نمایاں پوزیشن میں پاس کرنے کے بعد ہائی اسکول میں داخلے کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ ہائی اسکول سوپور میں تھا۔ جو زوری منز سے نو میل کی دوری پر
واقع تھا اور ایک کم سن لڑکے کے لیے روزانہ نو میل جانا اور نو میل واپس آنا یعنی روزانہ بھوک اور پیاس کے ساتھ اٹھارہ میل کا سفر کرنا کارے دارد کی حیثیت رکھتا تھا لیکن شوق اور لگن نے ساری مشکل آسان کردی اور سوپور ہائی اسکول میں داخلے کے بعد روزانہ کی یہ مشقت شروع ہوگئی۔ پرائمری میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے سبب تین روپے ماہوار وظیفہ بھی ملنے لگا۔ اُس زمانے میں تین روپے بہت بڑی رقم تھی اس سے طالب علم کی تمام ضرورتیں پوری ہوجاتی تھیں۔ حتیٰ کہ اس رقم میں اسکول کی یونیفارم بھی آجاتی تھی۔ ابھی ہائی اسکول کی تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ کچھ حالات و واقعات ایسے پیش آئے کہ انہیں اسکول چھوڑ کر لاہور جانا پڑا۔ لاہور اُن دنوں علم و ادب کا مرکز تھا اور کشمیر کے نوجوان علم حاصل کرنے کے لیے لاہور ہی کا رُخ کرتے تھے۔ سید علی گیلانی ابھی عہدِ طفولیت سے گزر رہے تھے کہ قدرت نے انہیں سخت آزمائش میں مبتلا کردیا۔ وہ لاہور میں علم کی پیاس بجھانے کے لیے دربدر کی خاک چھانتے رہے آخر ممتاز ماہر تعلیم آغا بیدار بخت کی زیر نگرانی ایک نائٹ کالج میں انہیں داخلہ مل گیا اور انہیں سکون حاصل ہوا۔ گیلانی صاحب نے لاہور میں قیام کے دوران اورینٹل کالج سے ادیب عالم، بعدازاں کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی اسناد حاصل کیں اور 1949ء میں معلمی کے پیشے سے وابستہ ہوئے اور کم و بیش 12 سال سرکاری اسکولوں میں پڑھاتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی علمی و ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ انہیں علامہ اقبال سے عشق تھا۔ اقبال کے کلام نے ان کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان سے بھی انہیں اس لیے عشق تھا کہ اس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور وہ اسے اسلام کا ماڈل بنانا چاہتے تھے۔
سید علی گیلانی کی تلاطم خیز زندگی کا آغاز جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد ہوا۔
(جاری ہے)