۔W11

390

 

 

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب آتش جوان تھا اور حبیب بینک پلازہ میں آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں بحیثیت پروگرامر کام کرتا تھا۔ جو لوگ بھی بینکنگ اور آئی ٹی کے کام سے واقف ہیں وہ یقینا اس بات سے بھی واقف ہوںگے کہ اس کام میں دفتر جانے کا تو وقت مقرر ہوتا ہے مگر واپسی کا پتا نہیں ہوتا۔ نکلنے کو ہاتھی نکل جائے اور پھنسنے کو ایک نکتہ ہی کافی ہے۔ اسی بات کو شاعر نے کچھ یوں کہا ہے۔
ایک نکتے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا
ہم دعا کرتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
تو جناب کمپیوٹر کے کام میں اکثر یہ ہوتا تھا کہ کوئی نہ کوئی نکتہ اٹک جاتا اور ہماری ساری رات اس کو ڈھونڈھنے اور اس کا حل نکالنے میں گزر جاتی تھی۔ اکثر رات دیر گئے گھر واپسی ہوتی تھی۔ ظاہر ہے جب رات دو ڈھائی بجے آپ حبیب بینک پلازہ سے نکلیں گے تو ایک ہو حق کا عالم ہوگا۔ ایسے میں کوئی معقول سواری ملنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن تھا۔ ایسے میں لے دیکر ایک ڈبلیو گیارہ منی بس کا آسرا رہ جاتا تھا۔ جو رات دن چوبیس گھنٹے چلتی رہتی ہے۔ جو کراچی میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس کا روٹ بھی طویل ترین ہے۔ یہ گودی سے شروع ہوکر بیچ شہر سے براستہ بندر روڈ اور پھر شاہراہ پاکستان سے ہوتی ہوئی نیو کراچی کے آخری کونے یعنی خدا کی بستی پر ختم ہوتی ہے۔
یہ 1985-86 کی بات ہے کہ ایک دفعہ ہمیں بہت دیر ہوگئی اور رات کے تین بج گئے خیر مرتا کیا نہ کرتا ہم ڈبلیو گیارہ میں سوار ہوگئے۔ پہلے تو خاصہ انتظار کرنا پڑا کہ بس مسافروں سے لبالب بھر جائے۔ اس کے بغیر ڈرائیور یعنی پائلٹ کو مزہ ہی نہیں آتا۔ ہم نے پائلٹ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ اس منی بس پر اکثر ایف سکسٹین لکھا ہوتا ہے بلکہ ایف سکسٹین بنا بھی ہوتا ہے۔ اور ڈرائیور بھی اس کو ایسی رفتار سے لہرا لہرا کے چلاتا ہے کہ ہوائی سفر اس کے سامنے ہیچ ہے۔ منی بس اندر اور باہر سے بہت سجی ہوتی ہے اور ہار پھول سے لدی ہوتی ہے جیسے کسی دولھا کی سواری ہو۔
جب بس مسافروں سے بھر جاتی تو کنڈکٹر سیٹی بجا کر چلاتا۔ ’’ڈبل ہے۔ جانے دو استاد‘‘۔ اور استاد شاید اسی صورِ اسرافیل کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ وہ ایکسی لیٹر پر پورا زور ڈال کر اس پر ایک پتھر رکھ دیتے ہیں۔ اور خود آلتی پالتی مار کر سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اب بس جانے۔ مسافر جانیں اور ملک الموت۔ مسافروں کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے۔ اب پائلٹ صاحب ایک بہت ہی پرانا اور ہزاروں مرتبہ کا بجایا ہوا گھسا پٹا کیسٹ لگا دیتے ہیں جس کی بھرآئی ہوئی آواز میں مشرکانہ قسم کی عاشقی سے بھر پور قوالیاں بجنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک طرف مسافر دم سادے کلمے کا ورد کررہے ہوتے ہیں کہ
نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
دوسری طرف کیسٹ میں قوالی لگی ہوتی کہ
میں خواجہ کی دیوانی خواجہ سے میرا لین دین ہے
ادھر ہم سوچ میں گم کہ ہمارے نام میں بھی خواجہ لگا ہوا ہے مگر یاد نہیں پڑتا کہ کیا لین دین ہے اور کب سے ہے اور اب تک کل کتنی رقم واجب الآدا ہے۔ ابھی ہم اسی حساب کتاب میں غرق ہوتے ہیں کہ اچانک بس ایک شدید جھٹکے سے رک جاتی ہے اور کچھ پچھلے مسافر اگلوں سے بغلگیر ہوجاتے ہیں۔ پتا چلتا ہے کہ راستے میں کسی اور مسافر کو چڑھانا تھا۔ اکثر ان منی بسوں کی چھت پر بھی لوگ سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تاکہ کھلی ہوا اور کھلی فضاء میں سانس لے سکیں۔ یہ ایک اضافی سہولت ہے جو ہر مسافر کو میسر نہیں۔ کیونکہ اس کے لیے بس کی چھت پر چڑھنا ہوتا ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں تا وقتہ کہ اس نے سرکس میں کام نہ کیا ہو۔
بعض مسافر تو اتنے تھکے ہوتے ہیں کہ بس میں بیٹھتے ہی ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر سو جاتے۔ اور اسی وجہ سے اکثر اپنی منزل مقصود سے آگے نکل جاتے۔ کبھی کبھی بس میں کوئی چورن بیچنے والا بھی چڑھ جاتا ہے اور آواز لگاتا ہے کہ ’’بھائیوں! ہر مرض کی دوا۔ سلیمانی چورن۔ ان شاء اللہ چورن اندر دم باہر‘‘۔ ظاہر ہے ایسے میں کون چورن خریدے گا۔ مایوس ہوکر بے چارہ اگلے ہی اسٹاپ پر بس سے اتر جاتا ہے۔ اور مسافر حضرات شکر ادا کرتے ہیں کہ جان بچی سو لاکھوں پائے۔
ہر حکومت با عزت پبلک ٹرانسپورٹ کا وعدہ تو کرتی ہے مگر اس بس کی مقبولیت کے آگے بے بس معلوم ہوتی ہے۔
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا
اور وہ قرضہ ہی کیا جو ادا ہوگیا
یہی وجہ ہے کہ آج تک نہ تو سرکلر ریلوے چل سکی اور نہ ہی گرین بسیں۔ کیونکہ حکومت عوام کی فکر میں دبلی ہورہی ہے کہ اتنی اچھی اچھی منی بسوں اور چنگ چی رکشوں کے ہوتے ہوئے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کیوں مہیا کرے۔ ظاہر ہے جو لطف ان سواریوں میں دھکے کھانے اور مفت میں ہاضمہ درست کرنے میں ہے وہ اور سواریوں میں کہاں۔ پھر کراچی کی سڑکوں پر ان کے علاوہ دوسری کوئی اور سواری چل ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ ڈبلیو گیارہ ہی واحد سواری ہے جو سڑک اور کھڈوں سے بے نیاز ہوکر مائل بہ پرواز ہے۔ اسی لیے اس کو ایف سکسٹین کہا جاتا ہے بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ اگر اس کی ایف سکسٹین سے ریس لگوادی جائے تو یقینا یہ پہلے نمبر پر آئے گی اور ہمارے مایہ ناز پائلٹ بے چارے منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔