امریکا کا سپر پاور اسٹیٹس ختم ہوگیا،چین معاشی طور پر ابھراہے

340

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) امریکا کا سپر پاور اسٹیٹس ختم ہوگیا‘ چین معاشی طور پرابھرا ہے‘ افغانستان میں شکست کے باوجود اتحادی اب بھی واشنگٹن کے ساتھ ہیں ‘ چین کو نئی معاشی منڈی ملی ‘ بیجنگ کی پالیسی کو امریکی حکمت عملی کے ساتھ نہیںجوڑا جاسکتا ‘ہمیں پاکستان کا مفاد دیکھنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ (ض) کے صدر اعجاز الحق، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سربراہ شمس الرحمن سواتی، نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم، تجزیہ کار اعجاز احمد اور تجزیہ کار خدا یار مولا نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا افغانستان میں امریکا کی شکست اور چین کے ابھرنے نے امریکا کی عالمی حیثیت کو متاثر کیا ہے؟‘‘ اعجاز الحق نے کہا کہ امریکا کی شکست نے اسے معاشی لحاظ سے کمزور کیا ہے مگر اس کا چین سے موازانہ کرنا درست نہیں ہے‘ بے شمار شعبوں میں امریکا بہت آگے ہے‘ ابھی ہمیں انتظار کرنا چاہیے اور دیکھیں کہ حالات کس رخ جا رہے ہیں ‘اس کے بعد ہی کوئی رائے بنائی جاسکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ چین کے ابھرنے سے امریکا متاثر ہو رہا ہے‘ یہ رائے درست نہیں ہے‘ اقوام عالم میں ابھی بھی دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ امریکا کی شکست نے اس کا سپر پاور کا اسٹیٹس ختم کردیا ہے‘ امریکا معاشی طور پر بھی بہت متاثر ہوا ہے اور چین اس وقت ایک سپر پاور کی حیثیت سے ابھرا ہے اور اس کی معیشت بھی بہت اچھی ہے‘ دونوں کے صدور کے ٹیلی فونک رابطے میں چینی صدر کی گفتگو میں اعتماد تھا اور امریکی صدر دبے رہے۔ خدا یار مولا نے کہا کہ یہ شکست کا معاملہ نہیں ہے‘ امریکا کی موجودہ قیادت نے حکمت عملی تبدیل کی ہے‘ اسے شکست کا نام دینا مناسب نہیں ہے اور جہاں تک چین کے ابھرنے کا تعلق ہے‘ اسے نئی منڈی مل گئی ہے اور وہ سی پیک ڈپلومیسی کے ذریعے اپنی اہمیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگا۔ شکیل انجم نے کہا کہ خطے کے ممالک بھی ایک حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں‘ سب چاہتے ہیں کہ کابل میں امن قائم ہو جائے لیکن ابھی یہ کہنا کہ امریکا شکست کھا گیا ہے اور چین اُبھر رہا ہے‘ ہمیں پاکستان کا مفاد دیکھنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں‘ امریکا5 بڑی قوتوں میں شامل ہے اور اس کے پاس ویٹو پاور بھی ہے‘ وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی ہے‘ رائے بناتے ہوئے حقائق جاننا ضروری ہے۔ اعجاز احمد نے کہا کہ امریکا طالبان کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد وہاں سے نکلا ہے اس کے اتحادی ابھی بھی اس کے ساتھ ہیں اور طالبان نے بھی معاہدے کی پاسداری کی ہے لیکن کہیں کہیں خلاف ورزی بھی ہوئی ہے جس کے بعد امریکا کی جانب سے عالمی اداروں کی مدد سے متعدد پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں بہر حال اس کے باوجود امریکا طالبان کے ساتھ چلنا چاہتا ہے اور یہ پابندیاں بھی ختم ہوجائیں گی‘ ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور افغانستان کو اسی تناظر سے دیکھتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ہمیں تحریک طالبان پاکستان کی وجہ سے کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے‘ چین کی اپنی ایک پالیسی ہے وہ معاشی قوت بن رہا ہے‘ اسے جنگوں کی جانب دیکھنے کی عادت نہیں ہے وہ تو معاشی منڈیوں پر قبضہ چاہتا ہے اس کی پالیسی امریکا جیسی نہیں ہے لہٰذا اس کی پالیسیوں کو امریکا کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھا جاسکتا‘ دونوں ملکوں کے معاشی اور سیاسی مفادات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں جہاں تک اس سوچ کا تعلق ہے کہ امریکا شکست کھا گیا ایسا نہیں ہے، یہ پروپیگنڈا افغانوں کی جانب سے ہو رہا ہے یا امریکا مخالف لابی اس طرح کی بات کر رہی ہے تاہم امریکا کی عالمی حیثیت متاثر ضرور ہوئی ہے۔