کشمیر کی سب سے توانا آواز خاموش ہوگئی – محمد عمران ظہور غازی

286

جدوجہد، مزاحمت، اور کشمکش کا استعارہ تحریک حریت کشمیر کے روحِ رواں سیدعلی گیلانی بھی رخصت ہوئے۔ ان کا یوں اچانک چلے جانا تحریک حریت کشمیر کے لیے ہی نہیں خود اہلِ کشمیر کے لیے بھی بڑے صدمے کا باعث ہے۔ وہ رخصت ہوکر بھی بھارت کے سیکولر چہرے کو بے نقاب کرگئے۔ جیسے ان کا جنازہ ان کے اہلِ خانہ سے چھینا گیا اور رات کے اندھیرے میں تدفین کی گئی، اس نے بھارت کے چہرے پر سیاہی مَل دی۔ دنیا بھارت کے اس رویّے اور طرزعمل سے نفرت اور بے زاری کا اظہار کررہی ہے۔

بلاشبہ سید علی گیلانی اس دور کی عہد ساز شخصیت اور تحریک آزادئ کشمیر کے سب سے بڑے وکیل تھے۔ وہ کشمیر کاز پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے اور اہلِ کشمیر کے بلند آہنگ ترجمان تھے۔ بے پناہ مشکلات، ظلم و جور اور تشدد نے ان کا راستہ کھوٹا کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ جرات، ثابت قدمی اور استقامت کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن رہے۔ طویل قیدوبند کی صعوبتوں اور نظربندی نے ان کے حوصلوں کو جِلا بخشی۔ عوام الناس کے ساتھ محبت، اور قربِ الٰہی نے ان کے جذبوں کو مہمیز دی۔ وہ لوگوں سے بے پناہ محبت کرتے اور لوگ ان کو ٹوٹ کر چاہتے۔ اہلِ کشمیر کی محبت ان کا اثاثہ تھی۔ نوجوان ہوں یا بوڑھے اور بچے… اپنے ہوں یا پرائے… سب ان کی محبتوں کے اسیر تھے۔ عوامی محبت جیسی ان کے حصے میں آئی، کم ہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔

سید علی گیلانی 27 ستمبر 1929ء کو ولر جھیل کے کنارے آباد گائوں زوری منز (Zoori Mans) تحصیل بانڈی پورہ سوپور میں پیدا ہوئے۔ سادات کی گیلانی شاخ سے تعلق کے ناتے ان کے خاندان کو لوگوں میں بے پناہ عزت و احترام حاصل تھا۔ ان کا نام کشمیر میں اسلام کی روشنی پھیلانے والے بزرگ سید علی ہمدانی کی نسبت سے رکھا گیا تھا، جو اسمِ بامسمیٰ ثابت ہوا۔ ابھی سید علی گیلانی بمشکل دو سال کے ہوں گے کہ ڈوگرہ سامراج نے سری نگر جیل کے سامنے 22 فرزندانِ اسلام کو شہید کردیا۔ ان کی زندگی کی ابتدا اور ذہنی و فکری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی جو اہلِ کشمیر کے لیے بے بسی، بےچارگی اور غلامی سے عبارت تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سید علی گیلانی حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اور سید مودودیؒ سے متعارف ہوئے۔ اقبالؒ کی شاعری اور سیدؒ کی نثر نے ان کو اپنا ایسا گروید بنایا کہ پھر وہ ساری زندگی اس کے سحر سے نہ نکل سکے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کی، پھر مشہور کشمیری مؤرخ محمد دین فوق کے ذریعے لاہور آئے، اورینٹل کالج سے علوم شرعی کی تکمیل کی، اور واپسی پر شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئے اور بطور استاد نسلِ نو کی تدریس وتربیت کا اہم فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ اسی دوران وہ باقاعدہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ بعدازاں تحریکی تقاضوں اور ضروریات کے پیش نظر ملازمت کو خیرباد کہہ کر ہمہ وقتی اپنے آپ کو تحریک کے لیے وقف کردیا اور نہایت جذبے، سرگرمی اور تحرک سے ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ جماعت کے کام کی توسیع اور ابلاغ میں نہایت فعال کردار ادا کیا۔ اسی زمانے میں جب وہ سوپور کے امیر تھے انہیں بخشی غلام محمد وزیراعظم مقبوضہ جموں و کشمیر کی طرف سے پیشکش کی گئی کہ وہ جماعت چھوڑ کر ان کی پارٹی میں آجائیں۔ اس کے عوض انہیں وزارت کی پیشکش کی گئی جسے انہوں نے نہایت جرات اور شانِ بے نیازی سے ٹھکرا دیا، اور فریضہ اقامتِ دین کے نظریے، اور استقامت کے ساتھ جدوجہد سے وابستہ رہے، اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے۔ تحریک ِاسلامی کے قائدین کا یہ طرئہ امتیاز رہا کہ انہوں نے ہمیشہ اقتدار اور مراعات پر لات ماری اور کبھی اپناضمیر نہیں بیچا۔اس دوران وہ جماعت کی جانب سے اپنے آبائی حلقے سوپور سے مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے تین بار رکن منتخب ہوئے۔1972ء میں پہلی بار،1977ء میں دوسری بار، اور1987 ء میں تیسری بار بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے،اور عوامی مسائل، حقِ خودارادیت اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جرات مندانہ کردار ادا کرتے رہے۔ 1990 کی دہائی میں شروع ہونے والی تحریک جدوجہد آزادی میں جب تحریک حریت کے نئے باب کا آغاز ہوا اور ”تحریکِ حریت جموں و کشمیر“ کے نام سے نیا پلیٹ فارم بنا تو سید علی گیلانی اس کے مسلمہ قائد ٹھیرے۔ انہوں نے نہایت حکمت، بالغ نظری، مضبوط مؤقف، بھرپور اور توانا انداز میں جدوجہد آزادی اور تحریک مزاحمت کو آگے بڑھایا۔

وہ امت کا درد رکھنے والے بیدار مغز رہنما تھے۔ اہلِ کشمیر کے ساتھ ساتھ وہ اہلِ پاکستان کے لیے بھی فکرمند رہتے۔2005ء میں جب پرویزمشرف اور من موہن سنگھ ڈپلومیسی کا چلن عام تھا، سید علی گیلانی نے پرویزمشرف کے اس فارمولے کو بےباکانہ مسترد کردیا، جس پر پرویزمشرف بہت ناراض ہوئے۔ ایسا حوصلہ، بے باکی اور بے خوفی کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

اس زمانے میں حریت کانفرنس کو تقسیم کرنے اور گیلانی صاحب کو تنہا کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں جو بالآخر اپنے انجام کو پہنچیں۔ ان کے اس بے باکانہ طرزعمل نے اہلِ کشمیر کے دلوں میں ان کے مقام و مرتبے کو مزید بلند کردیا۔

سید علی گیلانی اہلِ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ اہلِ پاکستان بھی ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے جیسے کوئی اپنا ہو۔ کشمیر کے درو دیوار ہوں، یا گلیاں اور بازار… پاکستان سے محبت کی گواہی دیتے ہیں۔ 2019ء میں بھارت کی مودی سرکار نے ریاست کشمیر کا خصوصی تشخص ختم کرنے کے اقدامات کیے جس پر عالمی برادری کے مایوس کن رویّے نے بالعموم اور پاکستانی حکمرانوں اور قومی قیادت کے طرزعمل نے بالخصوص سید علی گیلانی کو دکھ سے دوچار کیا۔ لیکن وہ جاتے ہوئے بھی امید اور مزاحمت کا درس دے گئے۔

سید علی گیلانی 20 برس سے زائد عرصہ پابندِ سلاسل رہے، قیدوبند کی صعوبتوں سے وہ مردانہ وار نبرد آزما رہے۔ اہلِ کشمیر کو جدوجہد، کشمکش اور مزاحمت کا درس دیتے رہے۔ ان کی زندگی نہ جھکنے اور نہ دبنے سے عبارت رہی۔ وہ گزشتہ 12 سال سے اپنے گھر پر ہی نظربندی کی زندگی گزار رہے تھے،لیکن مجال ہے کہ عوام سے ان کا رابطہ ٹوٹا ہو، یا وہ کشمیر کاز سے ذرا بھی غافل ہوئے ہوں!

تحریکی، دعوتی اور سیاسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ سید علی گیلانی نے تصنیف و تالیف کے محاذ پر بھی کام جاری رکھا۔ انہوں نے 28 سے زائد کتب کا وقیع سرمایہ چھوڑا، جن میں ان کی سوانح حیات ”ولر کنارے“ (اول، دوم)، ”رودادِ قفس“ (اول، دوم)، ”اقبال روحِ دین کا شناسا“، ”قصہ درد“، ”نوائے حریت“، ”بھارت کے استعماری حربے“،”عیدین:نظام طاغوت کے خلاف برات کااعلان“، ”صدائے دردِ دل“،”سفر محمود میں ذکرِ مظلوم“، ”دید وشنید“، ”ملت ِمظلوم، تو باقی نہیں“، ”ہجرت اور شہادت“،” تحریکِ حریت کے تین اہداف“،” رسولِ رحمت عصرِ حاضر میں“، ”معراج کا پیغام، نوجوانانِ ملت کے نام“، ”دستور تحریک ِحریت“ اور ”مقدمہ الحاق“ شامل ہیں۔ وہ آزادی کشمیر کی تمنا لیے اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ حقِ خودارادیت کی مضبوط، توانا اور دبنگ آواز خاموش ہوگئی۔ ان کی زندگی سراپا جدوجہد تھی۔ ان کی دنیا سے رخصتی اہلِ کشمیر کے لیے عزم وحوصلے اور مودی سرکار کے لیے ہزیمت کا سبب بن گئی۔ ان کی نماز جنازہ کے اجتماع سے خائف بھارت سرکار نے اپنے ہاتھوں اپنا چہرہ سیاہ اور داغ دار کیا۔ ان کی میت جیسے ان کے اہلِ خانہ سے چھینی گئی اور رات کے اندھیرے میں عجلت میں جیسے سپردِ خاک کی گئی اس نے بھارت کے سیکولر چہرے سے نقاب سرکاکر دنیا کو دکھا دیا ہے کہ یہ ہے سیکولرازم، اور یہ ہے سیکولر ملک کا چہرہ… جہاں اقلیتوں کو جنازہ پڑھنے اور تدفین کی آزادی بھی حاصل نہیں۔

(This article was first published in Friday Special)