بھارت میں مسلمانوں سے نفرت کی نئی مہم

حکومت کی سرپرستی میں ہندو انتہا پسندوں کو دہشت اور غنڈہ گردی کی کھلی چھوٹ دیدی گئی

بھارت میں ہندوانتہا پسندتنظیموں کے ذریعے پھیلائی گئی مذہبی منافرت اس وقت پورے عروج پرہے، جس کے سبب دن بدن حالات سنگین اورنازک ہوتے جارہے ہیں، جب سےسیاسی گلیاروں میں ’’بھگوا گمچھا‘‘ ڈال کرمسلمانوں کو ’’مارنے، کاٹنےاورگولی مارنے‘‘ والے اونچی اونچی کرسیوں پربراجمان ہونے لگے ہیں، تب سےسرعام ہی نہیں بلکہ برسراسٹیج بھی مذہب کانام لےکرمسلمانوں کوگالیاں دینے کا ایک مقبول ترین ٹرینڈ چل پڑاہے۔ آج کل جسے دیکھو گلے میں بھگوا کپڑا ڈال کرہرگلی نکڑ پر برساتی مینڈکوں کی طرح صرف مسلمانوں کے خلاف’’ ٹرٹر‘‘ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کھلے عام نفرت اور دھمکیوں پر مبنی نعرے بازی عام ہو چکی ہے ’’ہندوخطرے میں ہے، ہندوجاگ گیاہے، ملّے کاٹے جائیں گے، قرآن آتنک واد پھیلارہا ہے، اسلام دہشت گردپیدا کر رہاہے، پیغمبر اسلام کافروں کو قتل کاحکم دیتے ہیں، گھرمیں گھس کرمسلمان تمہاری بہو بیٹیوں کاریپ کریں گے‘‘وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کی سنگین زہرفشانی کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت کاماحول بنایا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو ’’گئوہتیا،دھرم پریورتن اورلوجہاد‘‘ جیسی کوئی بھی فرضی کہانی گھڑ کرمارا، پیٹااورکاٹا جا رہا ہے، جس ملک کی آزادی کے لیے ہمارے اسلاف نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ دیا، آج وہی ہمارا مقتل بنتا نظر آرہا ہے اوراسی سے ہمیں نکالنے کی سازش رچی جارہی ہے۔
آج ملک کے کونے کونے میں، ہندومہاسبھا، ہندورکشادل، ہندوجاگرن منچ، ہندویوا واہنی جیسی ہزاروں انتہا پسند فرقہ پرست تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کی سوداگری کرنےمیں لگی ہوئی ہیں، کیوں کہ نفرت کےاس کاروبارسے انہیں کئی طرح کےفائدے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ایک تو مقامی انتظامیہ پران کی دھاک بیٹھ جاتی ہے، جس کے سبب پولیس والے انہیں نظر انداز کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اپنے مفادکے لیے کسی بھی معاملے کو ’’ہندومسلم‘‘کارنگ دے کرسامنے والے کا جنازہ نکالنا بڑا ہی آسان ہوجاتا ہےاورقانون کے ہاتھ لمبے ہونے کے باوجودبھی ان غنڈوں کےگریبان تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ بعض اوقات توقانون کے یہ لمبے ہاتھ اس ’’دہشت گردی کا ساتھ دینے‘‘ میں بھرپو ر معاونت سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔دوسرا یہ کہ سیاسی گلیاروں میں ایسے طبقات کی رسائی بہت جلدہوجاتی ہے، جوجتنامسلمانوں کے خلاف زہراگلتاہے اس کاسیاسی قد اتناہی اونچا ہوجاتاہےاور اگر کوئی’’گولی مارو سالوں کو‘‘ جیساسپرہٹ نعرہ لگادیا تو بس راتوں رات وزارت یا کابینہ میں جگہ مل جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ اس ’’بھگواگمچھا‘‘اور’’ہندو‘‘ الفاظ کی آڑمیں پرلے درجے کی غنڈہ گردی ’’خدمت‘‘ کا روپ دھار لیتی ہے اور ان کے لیے بڑے سے بڑا ناجائزکام’’ جائز‘‘ ہو جاتا ہے۔دہشت گردی، غنڈہ گردی، دادا گیری، کچھ بھی کیجیے، کوئی روک ٹوک نہیں۔
انہی سیاسی امیدوں اوردنیاوی مفادکوحاصل کرنے کے حرص وہوس میں آج کل ہندو انتہاپسندتنظیموں کی طرف سے بڑے زور و شور سے یہ باورکرانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان لڑکوں اور غیر مسلم لڑکیوں کے درمیان شادی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، وہ کوئی پیار ومحبت کا معاملہ نہیں بلکہ ایک منصوبے کے تحت ہے، جس کا مقصد ہندو لڑکیوں کو پیار ومحبت کے جال میں پھنساکر ان سے شادی کرنا اور بالآخر ان کو مسلمان بنانا ہے، جسے’’ لَوجہاد‘‘کا اختراعی نام دیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ تأثر بھی دیا جارہا ہے کہ مسلمان چاہے جنگ کے میدان میں ہو یا پیار کے، ہرحال میں وہ صرف ’’جہادی‘‘ ہوتا ہے۔ اس طرح سے مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھانے کے ساتھ ساتھ لفظ جہاد کو منفیت کے معنی پہنانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ ابھی تک کسی بھی ایجنسی نے اس سلسلے میں کوئی اطلاع یا رپورٹ نہیں دی ہے، نہ ہی مرکز یا ریاستوں نے کوئی ایسا سروے کرایا جس سے پتا چل سکے کہ ملک میں ’’لو جہاد ‘‘ کاکوئی معاملہ معرض وجود میں آیاہے اور ان سبھی حقائق کے باوجودبی جے پی کے زیر اقتدارکئی ریاستیں اس فرضی ’’ لوجہاد‘‘ کے خلاف قانون بناچکی ہیں اور کچھ اس کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ طرزعمل اس حقیقت کوواضح کرتاہےکہ یہ صرف مسلمانوں کو بدنام کرنےاوران کے خلاف نفرت کاماحول پیدا کرنے کی ایک گندی سازش ہے اور کچھ نہیں۔
نفرت وعداوت کے ان سوداگروں کے ذریعے نفرتوں اورسازشوں کاایساجال بُناگیاہے کہ کوئی بھی مسلمان لڑکایالڑکی ان کے دست شرسےمحفوظ نہیں۔ مسلم لڑکوں اورلڑکیوں کومحبت کے دام میں پھانس کران کی زندگی تباہ وبرباد کرنے کے لیے ہندولڑکوں اورلڑکیوں کو باقاعدہ تربیت دی جارہی ہے۔ اس کام کو منصوبے کےتحت منظم طریقے سے انجام دینے کے لیے موبائل آپریٹر کمپنیوں سےمسلم لڑکوں اورلڑکیوں کےنمبرحاصل کیے جاتے ہیں، پھرمسلم لڑکوں سے ہندولڑکیاں اورمسلم لڑکیوں سے ہندولڑکے موبائل پررابطہ کرتے ہیں، ان سے پیارو محبت کی باتیں کرتے ہیں، رفتہ رفتہ ان سے راہ ورسم بڑھاتے ہیں، ملاقاتیں کرتے ہیں، ساتھ میں گھومتے پھرتے ہیں اور انہیں اپنے اعتماد میں لے لیتے ہیں۔ اس دوران مسلمان لڑکوں پر تشدد کرنے کا موقع ملتے ہی انہیں اس قدر مارا جاتا ہے کہ وہ برائے نام ہی زندہ رہ پاتا ہے۔ گھروں پر یہ ہندو انتہا پسند تنظیمیں حملہ کرتی ہیں، مارپیٹ، لوٹ مار سب کرتی ہیں، اہل خانہ کو سب چھوڑ چھاڑ کر جان بچانے کے لیے فرار پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ رشتے دارتک محفوظ نہیں رہتے اور تو اور پولیس والے بھی اس معاملے میں ’’شیرببر‘‘بن جاتے ہیں اور آنکھ بندکرکے بوڑھے ماں باپ پر ایسی لاٹھیاں برساتے ہیں جیسے وہ انسان نہیں پتھر ہوں اور کچھ دوسرے معاملات میں جب یہی ’’بھگوادھاری‘‘ ان پولیس والوں کی دوڑا دوڑا کر ’’مرمت‘‘ کرتے ہیں تو ان کے سامنے یہ’’ بھیگی بلّی‘‘ بن جاتے ہیں۔
مسلمان لڑکیوں کو جال میں پھانس کران کی زندگی تباہ وبربادکرنے یا انہیں مذہب سے کرنے یا بدلنے کے لیے بجرنگ دل جیسی ہندوانتہا پسند تنظیمیں ہندولڑکوں کوباقاعدہ تربیت دیتی ہیں۔ انہیں ایسے اسکول، کالج اوریونیورسٹی کو ہدف بنانے کا کہا جاتا ہے، جہاں مسلم لڑکیاں زیادہ پڑھتی ہیں۔ انہیں مسلمان لڑکیوں کو ورغلانے کا ہدف دیا جاتا ہے اور پکڑے جانے پر ہرطرح کی قانونی ومعاشی امدادفراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے لاکھوں روپے بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ بھارتی صحافی اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں ایسے واقعات کی تصدیق بھی کر چکے ہیں۔
آئے دن اخبارات کی سرخیاں بننے والی مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی خبریں کوئی اتفاقی نہیں بلکہ اِسی خطرناک مہم کاحصہ ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں سرعام ہندو نوجوانوں کو ورغلا رہی ہیں کہ وہ مسلمان لڑکیوں کو اپنی طرف مائل کریں یعنی ’’لوفساد‘‘ کے لیے یہ تنظیمیں خود سازش بُن رہی ہیں اور ’’لو جہاد‘‘ جہاد نامی فرضی کہانی گھڑ کر مسلمانوں کو نہ صرف بدنام کیا جا رہا ہے بلکہ ان پر زمین تنگ کی جا رہی ہے۔
بھارت میں باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے اس طرح کے واقعات پوری امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکر ہیں۔ اگر اب بھی ہم خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے اور اپنی نسل نو کو ان خطرناک سازشوں سے نہ بچایا تو آنے والے دنوں میں ہمارا وجود مزید خطروں میں پڑ سکتا ہے۔
اس صورت حال کاذمہ دارکون؟
اسلام کی بنیادی تعلیم وتربیت ہر مسلمان کے لیے ایک مضبوط حصارکی حیثیت رکھتی ہے جو گمراہی کی تیز و تند آندھیوں سے آہنی دیوار بن کر اس کی حفاظت کرتی ہے، لیکن افسوس کہ آج کے مسلم والدین عموماًجس اہتمام اوردلچسپی کامظاہرہ اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم پر کرتے ہیں اس کا عشرعشیر بھی دینی تعلیم پر نہیں کرتے۔ بعض لوگوں نے تو اپنے آپ کوترقی یافتہ کہلانے کے لیے ’’روشن خیالی‘‘کی ایسی بھیانک روش اختیارکی جس کی’’ منحوس روشنی‘‘نے ان کا اور ان کی نسل نو کا مستقبل بھی تاریک کر دیا ہے۔ ایسے لوگ اسلامی تعلیم وتربیت کو دقیانوسی اور قدامت پسندی سے تعبیرکرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل بے حیائی اور بے راہ روی، یہاں تک کہ ارتداد کی پر خطر راہ پر گامزن ہے۔ رہی سہی کسر موبائل اور انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے۔
نسل نوکواس ارتدادی مہم سے کیسے بچائیں؟
موجودہ حالات میں ان فرقہ پرستوں اور انتہا پسند ہندوؤں سے مسلمانوں کی عزت وآبرو کو بچانا اہم چیلنج بن چکا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ائمہ مساجد بھی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر جمعہ میں اصلاح معاشرہ کے کسی نہ کسی موضوع پر سنجیدہ خطاب کریں۔ خاص کر ایمان وکفر، عقیدۂ توحید و رسالت اور فرقہ پرستوں کی آج کی اس خطرناک مہم کے بارے میں قوم کی نسل نو کو ضرور باخبر کریں۔ والدین بھی اپنی نسل نو کو مودی سرکار میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اس مہم کے زہر ہلاہل سے محفوظ ر کھنے کے لیے اپنی بچیوں کو اسلامی پردے کا پابند بنائیں۔ ان میں شرم وحیا اور عفت و عصمت کی حفاظت کاجذبہ پیدا کریں۔
بھارت میں گئو رکھشا، لو جہاد یا دیگر الزامات لگا کر مسلمانوں کو ہدف بنانا، ان پر ظلم و زیاتی کے پہاڑ توڑنا اور ملک کی زمین ان پر تنگ کرنا دراصل مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی کا حصہ ہے، جس کے تحت انتہا پسند ہندوؤں کو دہشت اور غنڈہ گردی پھیلانے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے جب کہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ سے تنگ کیا جا رہا ہے۔