آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کرنے والا سی آئی اے کا ایجنٹ ہے؟

473

ویکی لیکس کا کہنا ہے کہ ’’آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اسی طرح کے عالمی مالیاتی ادارے امریکی سی آئی اے نے قائم کیے ہیں جن کا مقصد مختلف حکومتوں کے سر براہان کو کنٹرول کرکے اُس ملک کے معاشی اداروں میں اپنے پسند کے لوگوں کو وزیرِ خزانہ اور مرکزی بینک کا صدر نامز کرنا ہے تاکہ دنیا کی معیشت پر قبضہ کر کے غربت بے روزگاری میں اضافہ اور تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کو کم سے کم کرکے ملکوں کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ ان کے پسندیدہ مالیاتی قوانین پر من و عن عمل کریں جس سے عوام میں مایوسی بڑھتی ہے اور اس ملک کو عدم استحکام سے شکار کر دیا جاتا ہے‘‘۔ یہ سب کچھ وزیر عمران خان کو اچھی طرح معلوم ہے کیوں کہ انہوں نے ویکی لیکس کو بہت تفصیل سے پڑھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’ویکی لیکس‘‘ ہی نے یہ بھی بتایا ہے کہ ’’عمران خان پاکستان کے چند ایماندار سیاستدانوں میں ایک ہیں‘‘ اور ویکی لیکس کے اس سرٹیفکیٹ کو 2018ء کے انتخابی مہم میں اپنے فائدے کے خوب اچھی طرح استعمال کیا ہے۔
ویکی لیکس نے جو کچھ انکشاف کیا تھا عمران نے عالمی مالیاتی ادروں سے قرض کے لیے اسی رستے کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ آج اسی قرض کی وجہ سے آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے خطرناک شرائط کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان فوری طور پر اپنی کرنسی کا کنٹرول اوپن مارکیٹ کے حوالے کردے اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس صورت میں آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینا بند کر دے گا‘‘۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق عبدالحفیظ شیخ وزیرِ خزانہ اور ڈاکٹر باقر کوگورنر اسٹیٹ بینک بنایا تھا۔ جنہوں نے آتے ہی ڈالر کے بھاؤ میں اضافہ شروع کر دیا تھا جس سے ملکی معیشت میں تباہ کن سونامی سے دوچار ہوگئی ہے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم نے روپے کی قدر میں بڑی کمی، شرحِ سود میں بہت زیادہ اضافے، مہنگائی میں ہوشربا بڑھوتری، حقیقی اجرتوں میں زبر دست کمی، ملکی منڈی کی قوتِ خرید میں تیز ی سے گراوٹ، خوفناک صنعتی بحران، صنعتوں اور کاروبار کی بڑے پیمانے پر بندش، ٹیکسوں میں کمر توڑ اضافے، مختلف سرمایہ کاری منصو بوں سے ملکی اور غیر ملکی سرمائے کا انخلا، ترقیاتی وعوامی اخراجات میں بڑی کٹوتیوں اور اس سب کے نتیجے میں غربت، بیروزگاری، بھوک، ننگ وافلاس میں ناقابل بیان اضافے اور محنت کش عوام کی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی بربادی میں تیزی سے اضافہ جاری ہے۔ مزید برآں یہ سب کرنے کے بعد بھی نہ صرف مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کے اہداف پورے نہیں ہو سکیں گے بلکہ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں بھی بڑا اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تباہ کن معیشت کی کھلی تصاویر کے باوجود تمام مفروضوں کی طرح جی ڈی پی کی حقیقی شرحِ اضافہ کے اعدادو شمار بھی زمینی حقائق سے بالکل متصادم ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جی ڈی پی کی حقیقی شرحِ اضافہ (افراطِ زر کو منہا کر کے) مالی سال 18-2017ء میں 5.5فی صد تھی جو 2018-19 میں کم ہوکر 3.3فی صد پر آگئی۔ یہاں ہم بتاتے چلیں کہ بعض غیر سرکاری اندازوں کے مطابق یہ درحقیقت اس سے بھی کم تھی۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں یہ مزید کم ہو کر 2.4فی صد پر آ جائے گی لیکن اس کے بعد اس میں (حیرت انگیز طور پر) بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا اور مالی سال 2022-23ء میں یہ 5فی صد ہو جائے گی۔ جی ڈی پی کے تخمینے تو روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ اور نتیجتاً بڑھتے ہوئے افراطِ زر کی وجہ سے کسی حد تک درست ہو سکتے ہیں لیکن ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ جی ڈی پی کی حقیقی شرح اضافہ میں یہ بڑھوتری کیسے ممکن ہے اور یہ عجیب فارمولے کن معاشی کُتب سے اُٹھائے گئے ہیں۔ اس کی توجیہ صرف یہی دی جا سکتی ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام نے یہ ہوائی تخمینہ دے کر عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ بس تھوڑا سا مشکل وقت اگر کاٹ لیا جائے تو پروگرام کے نتیجے میں معیشت درست ڈگر پر ہونے کی وجہ سے ترقی کرنے لگے گی۔ لیکن ہماری نظر میں آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کی پہلے ہی سے پسماندہ اور کھوکھلی سرمایہ دارانہ معیشت کو بالکل تباہ کر کے رکھ دے گا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ آنے والے برسوں میں ممکنہ صورتحال کے تحت بھی جی ڈی پی کی حقیقی شرحِ اضافہ 1.5 سے3 فی صد تک رہے گی، بشرطیکہ شماریاتی ہیر پھیر نہ کیے جائیں، جبکہ بدترین ممکنہ صورتحال کا نتیجہ کساد بازاری، بیرونی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ اور معاشی انہدام کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے چند دن قبل ڈاکٹر پاشا سے بات چیت کی تو ان کہنا ہے رواں ماہ کے آخر تک ڈالر کو 175روپے تک پہنچانا آئی ایم کی شرط ہو سکتی ہے اور ڈالرز کی بڑھتی قیمت ملکی معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وفاق کے لیے تمام تر ٹیکس اضافوں اور کٹوتیوں کے باوجود بھی صنعت کاروں کو دی جانے والی سبسڈیوں، وفاقی سول افسر شاہی، اعلیٰ عدلیہ، حکومت کے اپنے اخراجات کی وجہ سے آئی ایم ایف کا مطلوبہ پرائمری بیلنس سرپلس حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے وفاق نے آئی ایم ایف کے ’تعاون‘ کے ساتھ تمام صوبوں سے یہ معاہدہ کیا ہے کہ وہ ہر مالی سال کے آخر میں صوبائی بجٹوں میں سے بچت کرکے پیسے وفاق کو بھیجیں گے تا کہ آئی ایم ایف کی شرط پوری کی جا سکے۔ یاد رہے کہ ان میں صوبہ سندھ بھی شامل ہے جہاں نام نہاد اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور ’عوام دوست‘ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں صوبے جی ڈی پی کے ایک فی صد کے برابر رقم (445ارب روپے) وفاق کو بھیجیں گے جبکہ مالی سال 2021-22ء میں یہ رقم جی ڈی پی کے 2.7 فی صد (1500ارب روپے) کے برابر ہو جائے گی۔ صوبے یہ ’بچت‘ کیسے کریں گے؟ اس کا جواب ہے کہ عوام پر نت نئے صوبائی ٹیکس اضافہ، صوبائی سطح پر ترقیاتی وعوامی اخراجات میں کمی، اور صوبوں کو منتقل ہوجانے والے صحت اور تعلیم جیسے بنیادی عوامی ضرورت کے شعبہ جات کی نجکاری کر کے حاصل ہوگا۔
لیکن عمران خان کو یا د رکھنا ہو گا کہ جس ’’ویکی لیکس‘‘ نے ان کو ایماندار سیاستدان قرار دیا ہے اسی کا کہنا ہے کہ ’’آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اسی طرح کے عالمی مالیاتی ادارے امریکی سی آئی اے نے قائم کیے ہیں‘‘ کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کر کے پاکستان کی اقتصادی بقا کو تباہ کر نے والا سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔