صنعتکار لیبر قوانین کو تسلیم نہیں کرتے ، لیاقت ساہی

184

جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس عدنان الکریم میمن کی عدالت سندھ ہائی کورٹ میں ایمپلائر فیڈریشن کی طرف مزدوروں کے کم سے کم اجرتوں کے نوٹیفکیشن کے خلاف داخل کردہ پٹیشنز پر ایمپلائر کے وکلاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے کم سے کم اْجرتوں کے 25ہزار کے نوٹیفیکیشن مینمم ویج بورڈ کے ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، اسے معطل کیا جائے۔ ورکرزکی طرف سے مزدور رہنما لیاقت علی ساہی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایمپلائر کے معزز وکلاء نے حقائق کو مسخ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ایمپلائر کم سے کم سے ویجز 25 ہزار کے اضافے کے خلاف عدالت میں پٹیشنز لے کر آئے ہیں، ان کی فیکٹریوں کا ریکارڈ چیک کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں، چونکہ ملک کے دستور کے آرٹیکل17 کے تحت ورکرز کو اداروں میں انجمن سازی کا آئینی حق ہے لیکن اداروں کے مالکان اس کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے ورکرز کو انجمن سازی سے محروم کر رہے ہیں، آئی ایل او کے کنویشن حکومت پاکستان نے ریٹیفائیڈ کیے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود آئی ایل او کنونشن 87اور 98 کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اس کی روشنی میں درخواست گزاروں کے اداروں میں اگر ان پر عمل ہو رہا ہوتا تو ورکرز سی بی اے یونین کے ذریعے اپنی چارٹر ڈیمانڈ پیش کرکے اپنی تنخواہوں کا مسئلہ حل کرسکتے تھے۔ ان پنشنرز کا عدالت میں آنے سے صاف ظاہر ہے کہ ان اداروں میں یونین کی رجسٹریشن نہیں ہونے دی جارہی۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ یورپین یونین کے ساتھ حکومت پاکستان نے جی ایس پی پلس کا ایگریمنٹ کیا ہے۔ جس میں حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ جو بھی ادارے اپنی پیداوار ایکسپورٹ کریں گے۔ ان پر لازم ہے کہ آئی ایل او کے کنونشن 87 اور 98 پر عمل درآمد کریں گے۔ عدالت کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ایمپلائر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا جس سے ملک کو بہت بڑا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ مزدورروں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ناانصافیاں کی جارہی ہیں۔ معزز عدالت مزدوروں کے آئینی حقوق کو بھی یقینی بنائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایمپلائر نے جو مؤقف اختیار کیا وہ درست نہیں ہے۔ مینمم ویج بورڈ میں ایمپلائر کے نمائندوں ورکرز کے نمائندوں کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ 2020ء میں وفاقی اور دیگر صوبوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا تھا لیکن سندھ حکومت نے 10 فیصد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا جس کی بنیاد پر ورکرز کے نمائندوں نے مینمم ویج بورڈ سندھ کے اجلاس سے مطالبہ کیا تھا کہ کم سے کم 20 ہزار تنخواہ غیر ہنر مند ورکرز کی جائے لیکن ایمپلائر کے نمائندوں کا مؤقف تھا کہ کووڈ کی وجہ سے ہم اضافہ نہیں کرسکتے جس پر کم و بیش 7 اجلاس ہوئے ہیں لیکن ایمپلائر کے نمائندوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ 22
اپریل 2021 کے اجلاس میں اس بنیاد پر 19 ہزارتنخواہ پر اتفاق ہوا تھا کہ یکم جولائی 2021 سے کم سے کم اْجرت غیر ہنر مند ورکرز کی 30 ہزار کی جائے چونکہ مہنگائی نے ورکرزکا جینا مشکل کردیا ہے۔ جس پر ایمپلائر نے اتفاق نہیں کیا، جس کی بنیاد پر ورکرز کے نمائندوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ مینمم ویج بورڈ کے تحت سندھ حکومت کو کلاز 6 کے تحت اختیار حاصل ہے کہ وہ ورکرز کی کم سے کم اجرت کو زمینی حقائق کے مطابق اضافہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت نے 25ہزار کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جو کہ قانون کے مطابق ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے ہر سال بجٹ میں وفاقی حکومت جو اعلان کرتی تھی وہ ہی تمام صوبے کرتے تھے لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت نے سہ فریقی لیبر کانفرنس کی گئی تھی، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مینمم ویج بورڈ سمیت دیگر تمام فورم میں ورکرز اور ایمپلائر کے 40فیصد اور سندھ حکومت کے 20فیصد نمائندے ہوں گے جس کی بنیاد پر فیصلہ قانون کے مطابق کیا گیا۔ لہٰذا معزز عدالت ایمپلائر کی تمام پٹیشنز کو خارج کرکے ورکرز کے آئینی حقوق کو تحفظ فراہم کرے اگلی سماعت آج 12بجے ہوگی۔