کنٹونمنٹ بورڈز انتخابات، جماعت اسلامی اور کراچی

601

ملک کے چاروں صوبوں کے کنٹونمنٹ بورڈز میں آج بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں۔ کراچی میں جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان اصل مقابلہ ہوگا۔ سیاسی گہما گہمی، جلسے، ریلیاں، اور انتخابی مہم ختم ہونے کے بعد سروے بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھا ہے۔ کراچی ماضی میں جن حالات سے گزرا ہے اور جو اس کا حال ہے اْس میں یہاںکے لوگوںکو ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ وہ اپنے اور شہر کے مستقبل کی بہتری کے لیے اچھے، دیانت دار اور باصلاحیت لوگوں کا انتخاب کریں۔ عروس البلاد کراچی کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اسے کوئی ’’اون‘‘ نہیں کرتا۔ یہاں ایم کیو ایم کو لوگوں نے جھولی بھر بھر کے ووٹ دیا، لیکن اس نے ’’اپنوں‘‘ کے نام پر اس شہر اور یہاں کے لوگوں اور نسلوں کو جس طرح برباد کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ پیپلز پارٹی کی کراچی دشمنی بھی تاریخی طور پر ہمارے سامنے عیاں ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کو بھی اس شہر کے لوگوں نے ووٹ دیا، لیکن انہوں نے بھی مایوس کیا ہے۔ نواز لیگ کا اس شہر میں کوئی کردار نہیں، اس کے دور میں ہونے والی مردم شماری میں کراچی کے ساتھ بڑا فراڈ یہ ہوا کہ اس کی آدھی آبادی ہی کو غائب کردیا گیا۔ اس وقت حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے کراچی کے مفادات کے خلاف اتحاد کیا ہوا ہے، اور یہ حکمران جماعتیں عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے صرف پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں۔ کراچی صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے، اور سندھ کی معیشت کا دار و مدار بھی اسی پر ہے۔ لیکن اس کا تاریخی طور پر کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ ٹیکس جائزے میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ کراچی سے 41فی صد ٹیکس وصول کیا گیا، جبکہ باقی ٹیکس پورے ملک سے وصول کیا گیا، لیکن اس کے باوجود کراچی کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں سے صرف چند فی صد حصہ دیا جاتا ہے۔ اس وقت کراچی کے ہر محلے، ہر گلی کے نکڑ اور چوراہے پر بارش کے بعد بری حالت ہے۔ جب زیادہ شور اٹھتا ہے تو لیپا پوتی کا عارضی کام کردیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ مختلف عنوانات سے پیسے بٹورنے کے بڑے کام میں لگی ہوئی ہے، اور اب تو سندھ حکومت ٹیکس ’کے۔ الیکٹرک‘ کے ذریعے وصول کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جب کہ شہر کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ کسی بھی علاقے کی اندرونی گلیوں میں اُبلتے گٹر اور کچرے کے ڈھیر جا بہ جا نظر آئیں گے۔ شہر کے لوگوں پر کئی طرح کے بڑے منظم ستم ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو ملازمتوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے، مقامی لوگوں کو گریڈ ون سے گریڈ پندرہ میں ملازمتیں نہیں مل رہیں، ان کے لیے ایک طرح سے ملازمتیں ناپید ہیں۔ جو ملتی بھی ہیں تو اس کے لیے بڑی رشوت دینی پڑتی ہے۔ اس قدر وسائل والے شہر میں بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان ہے۔ اس وقت تمام بڑے شہری ادارے اپنی غفلت اور نااہلی کے باعث مسائل کے حل میں ناکام ہیں۔ یہاں کی قیمتی زمینوں پر مافیاز کا قبضہ ہے۔ چالیس سال پرانا ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ ہو، آب رسانی منصوبہ، گرین لائن بس پروجیکٹ ہو یا سرکلر ریلوے کی بحالی… کوئی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔ یہاں کس کس مسئلے کا رونا رویا جائے! اس وقت شہر سلگتے اور گمبھیر مسائل کا شکار ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے اور اسکول بدانتظامی اور حکومتی نااہلی کے باعث تباہی کے دہانے پر ہیں، میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے کراچی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ تین کروڑ آبادی والے شہر میں ٹرانسپورٹ کا عملاً کوئی نظام نہیں۔ یہاں کے لوگ چنگ چی رکشوں، اور کوچوں کی چھتوں پر چڑھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ ماضی میں شہر کے اندر کے ٹی سی کی سیکڑوں بسیں چلتی تھیں، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر اس پورے ادارے کو تباہ کردیا۔ کے ٹی سی جب بند ہوئی اُس وقت سندھ میں ایم کیو ایم کا وزیر ٹرانسپورٹ ہوتا تھا۔ 1999ء میں سرکلر ریلوے بند ہوئی اُس وقت بھی ایم کیو ایم عروج پر تھی۔ آج وہ لوگ بھی انتخابات میں ووٹ مانگ رہے ہیں جو ایم کیو ایم کی باقیات ہیں، اس کے دھڑے اور اس سے نکلے ہوئے ہیں۔ اب یہ لوگ کراچی کے لیے باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن کراچی کے عوام آج یہ پوچھتے ہیں کہ انہوں نے خود اپنے دور میں کراچی کے لیے کیا کیا؟ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں شروع کیے گئے منصوبوں کے سوا شہر کے اندر کس نے تعمیر و ترقی کے اقدامات کیے؟ نعمت اللہ خان نے پانی کا منصوبہ K-3مکمل کیا، اور پھر K-4 شروع کیا، جسے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اُس وقت کے سٹی ناظم مصطفی کمال نے مل کر تباہ و برباد کیا، اور جو تاحال مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ کوٹا سسٹم میں غیر معینہ مدت کا اضافہ ہوا لیکن ان میں سے کسی نے آج تک اس کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ ان سب نے مل کر چائنا کٹنگ کی اور مال بنایا، نوجوانوں کو کھیل کے میدانوں اور عوام کو پارکوں سے محروم کیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ کس منہ سے عوام کے ہمدرد بنتے ہیں! اور پھر صرف انتخابات کے دنوںمیںنظر آتے ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیںکہ اگر اس شہر کو کسی نے اپنا سمجھا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، اور جماعت اسلامی کی یہ انفرادیت ہے کہ جب جب اسے کراچی کی خدمت کا موقع ملا تو اس نے میئر عبدالستار افغانی اور سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں یہ ثابت کیا کہ اس کے لوگ دیانت دار بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔ اور اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اقتدار میں نہیں ہوتی تب بھی جس قدر ممکن ہوتا ہے اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس کے قائدین اور کارکنان اپنا سب کچھ اس شہر کے لیے لگا دیتے ہیں۔ وہ اس شہر کے لیے جہاں ایوانوں میں آواز اٹھاتے ہیں وہیں گلی، محلوں اور سڑکوں پر بھی اس شہر کا حق دلانے کے لیے نکلتے ہیں۔ کورونا کی وبا اور ماضی میں بارشوں کی تباہ کاریوں میں متاثرین کی بحالی اور امداد کے لیے الخدمت کے رضاکاروں اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے جان کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ کر کام کیا ہے، اور ان کا کام اور ان کے لوگ ہمارے سامنے ہیں۔ جماعت اسلامی اس شہر کی حالت ِ زار کو درست کرنے، اس کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانے، اور اس کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے کام کررہی ہے۔ اور بات صرف اتنی نہیں ہے، درحقیقت جماعت اسلامی نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کم وسائل میں بھی بہت کچھ کرسکتی ہے، اور اس نے کراچی کے عوام کو کبھی دھوکا نہیں دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگ ہی حقیقت میں اپنے لوگ ہیں، باقی تو دھوکا اور سراب ہے۔ ہمیں شہر کو خوبصورت دیکھنا ہے، صاف و شفاف پانی کے حصول، اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے نجات سمیت بے روزگاری و دیگر ایشوز کو حل کرنے کے ساتھ اپنے بچوں کو اچھا اور پُرسکون مستقبل دینا ہے تو پھر آج اس شہر کے جائز حقوق کو واپس دلوانے کے لیے اپنا حصہ بھی ڈالنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کے عوام جہاں بڑی تعداد میں گلی محلوں کی سطح پر روزانہ کی بنیاد پر جماعت اسلامی کے کارکنان کے ساتھ کھڑے ہوں، وہیں آج کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواران کو جو تقریباً تمام نشستوں پر موجود ہیں، ووٹ دے کر کامیاب کریں۔ اور جو ان حلقوں میں نہیں رہتے وہ اپنے جاننے والوںکو ترازو پر نشان لگانے کی ترغیب دیں۔ کیونکہ ان انتخابات کے اثرات مستقبل میں پورے شہر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور ہمارے، آپ کے سب کے مستقبل پر پڑیں گے۔ اب فیصلہ لوگوںکو خود کرنا ہے کہ وہ اپنے علاقے کو مستقبل میں کیسا دیکھنا چاہتے ہیں!