آفات و مصائب کا سبب

455

 

اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال کیسے موجبِ خیر بنتے ہیں اور اسے ناراض کرنے والے اعمال کس طرح انسان کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں؟ اس کی وضاحت ایک حدیث قدسی سے ملتی ہے۔ ابودرداءؓ سے مروی ارشادِ نبویؐ کا مفہوم یہ ہے کہ فرمانِ الٰہی ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں بادشاہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں بادشاہوں کا مالک ہوں، بادشاہوں کا بادشاہ ہوں… لہٰذا اے میرے بندو! (ایسی حالت میں) ان بادشاہوں کو کوسنے اور انھیں بد دْعا دینے کے بجائے میری یاد میں لگ جاؤ اور (حالات میں تبدیلی کے لی) ذکر اور تضرع (رو نے اور گڑگڑانے) میں مصروف ہوجاؤ۔ میں ان بادشاہوں (کے شر سے حفاظت کے) لیے تمھاری کفایت کروں گا، یعنی تمھیں اپنی نصرت سے نوازوں گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
بلاشبہ گنا ہ کا ارتکاب، چاہے صغیرہ ہو یا کبیرہ، اللہ کی نافرمانی ہے۔ (اگر اس کی معافی نہیں ہوئی تو) ا نسان دنیا میں بھی اس کے وبال سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کا خمیازہ کسی نہ کسی صورت میں اسے بھگتنا پڑتا ہے یا پڑے گا۔ قرآن و حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ برے اعمال یا گناہ کے کام اللہ کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا وبال پریشانیوں و مصیبتوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے:
’’خشکی اور تری میں ہر طرف فساد برپا ہوگیا لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے، تاکہ وہ انھیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید وہ اللہ سے رجوع کر لیں (اور بْرے اعمال سے باز آجائیں)۔ (الروم: 14)
صاحبِ معارف القرآن تفسیر روح المعانی کے حوالے سے اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’فساد سے مراد قحط اور وبائی امراض اور آگ لگنے اور پانی میں ڈوبنے کے واقعات کی کثرت اور ہر چیز کی برکت کا مٹ جانا، نفع بخش چیزوں کا نفع کم نقصان زیادہ ہوجانا وغیرہ آفات ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان دنیوی آفات کا سبب انسان کے گناہ اور اعمالِ بد ہوتے ہیں، اور یہی مضمون ایک دوسری آیت میں اس طرح آیا ہے: ’’تمھیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمھارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب ہے، یعنی ان معاصی کے سبب جو تم کرتے رہتے ہو اور بہت سے گناہوںکو تو اللہ تعالیٰ معاف ہی کردیتے ہیں‘‘۔ (الشوریٰ: 24)
مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمھارے گناہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں نہ ان گناہوں کا پورا بدلہ دیا جاتا ہے اور نہ ہر گناہ پر مصیبت و آفت آتی ہے، بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کردیا جاتا ہے۔ بعض گناہ پر ہی گرفت ہوتی ہے اور آفت و مصیبت بھیج دی جاتی ہے۔ اگر ہر گناہ پر دنیا میں مصیبت آیا کرتی تو ایک انسان بھی زمین پر زندہ نہ رہتا، مگر ہوتا یہ ہے کہ بہت سے گناہوں کو حق تعالیٰ معاف ہی فرمادیتے ہیں اور جو معاف نہیں ہوتے ان کا بھی پورا بدلہ دنیا میں نہیں دیا جاتا، بلکہ تھوڑا سا مزہ چکھایا جاتا ہے، جیسا کہ اسی آیت کے آخر میں فرمایا: ’’یعنی تاکہ چکھا دے اللہ تعالیٰ کچھ حصہ ان کے بْرے اعمال کا‘‘۔ (الروم: 14)
مذکورہ بالا آیت کی اس ترجمانی کے حوالے سے یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ انبیا کرامؑ اور اللہ کے نیک و متقی بندے بھی مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ اس کا جواب مفسرین نے اس طور پر دیا ہے کہ آیت میں گناہوں کو مصائب کا سبب ضرور بتایا گیا ہے، لیکن اسے علتِ تامّہ یا سببِ واحد کے طور پر نہیں ذکر کیا گیا ہے، یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب بھی کسی پر کوئی مصیبت آپڑے اس کا گنہگار ہونا لازمی ہے۔ بعض اوقات مصائب و مشکلات آزمایش و امتحان اور اس سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے کی صورت میںرفعِ درجات کے لیے ہوتی ہیں۔ انبیا کرامؓ کے تعلق سے مصائب و پریشانیوں سے یہی مقصود رہا ہے اور کسی بھی دور میں نیک لوگوں کے مصائب و پریشانی سے دوچار ہونے پر ان کی یہی علّت یا حکمت سمجھنی چاہیے۔ (معارف القرآن)
اوپر کی باتوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انسان کے لیے مصائب و مشکلات سے نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ ربِّ کریم کو راضی کر لے، یعنی اپنے آپ کو ان تمام کاموں سے دور رکھے جنھیں اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ بلاشبہہ گناہوں سے بچنے سے اللہ کی خوشنودی نصیب ہو تی ہے اور یہ بالآخر موجبِ رحمت و قربتِ الٰہی بنتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورہ البقرہ میں اوامر یا نواہی کے ذکرکے بعد نو مقامات پر فرمانِ الٰہی ہے: وَاتَّقْوااللہَ۔اس آیت کا ترجمہ مختلف طور پر (اللہ سے ڈرو، اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرو، اللہ کی ناراضی سے بچو،اللہ کے غضب سے بچو) کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ کہ یہ اللہ کا خوف ہی ہے جو انسان کو اللہ رب العزت کی نافرمانی، اس کی ناراضی کے کاموں یا اس کے غضب سے بچنے پر اْبھارتا ہے۔