ؒافکار سید ابو الاعلیٰ مودودی

346

 

تصوف
تصوف کسی ایک چیز کا نام نہیں ہے بلکہ بہت سی مختلف چیزیں اس نام سے موسوم ہوگئی ہیں۔ جس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں وہ اور چیز ہے جس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں، وہ ایک دوسری چیز اور جس تصوف کی ہم اصلاح چاہتے ہیں وہ ایک تیسری چیز۔
٭…٭…٭
ایک تصوف وہ ہے جو اسلام کے ابتدائی دور کے صوفیا میں پایا جاتا تھا۔ مثلاً فضیل بن عیاض، ابراہم ادھم، معروف کرخی وغیرہم (رحمہم اللہ)۔ اس کا کوئی الگ فلسفہ نہ تھا، اس کا کوئی الگ طریقہ نہ تھا۔ وہی افکار اور وہی اشغال و اعمال تھے جو کتاب و سنت سے ماخوذ تھے اور ان سب کا وہی مقصود تھا جو اسلام کا مقصود تھا یعنی اخلاص للہ اور توجہ الیٰ اللہ۔ اس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور صرف تصدیق ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو زندہ اور شائع کرنا چاہتے ہیں۔
٭…٭…٭
دوسرا تصوف وہ ہے جس میں اشراقی اور رواقی اور زردشتی اور ویدانتی فلسفوں کی آمیزش ہوگئی ہے۔ جس میں عیسائی راہبوں اور ہندو جوگیوں کے طریقے شامل ہوگئے ہیں جس میں مشرکانہ تخیلات و اعمال تک خلط مط ہوگئے ہیں۔ جس میں شریعت اور طریقت اور معرفت الگ الگ چیزیں (ایک دوسرے کم و بیش بے تعلق، بلکہ اوقات باہم متضاد) بن گئی ہیں۔ جس میں انسان کو خلیفۃ اللہ فی الارض کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے کی بجائے اس سے بالکل مختلف دوسرے کاموں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک اس کو مٹانا خدا کے دین کو قائم کرنے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جاہلیت جدیدہ کو مٹانا۔
٭…٭…٭
ان دونوں کے علاوہ ایک اور تصوف بھی ہے جس میں کچھ خصوصیات پہلی قسم کے تصوف کی اور کچھ خصوصیات دوسری قسم کے تصوف کی ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اس تصوف کے طریقوں کو متعدد ایسے بزرگوں نے مرتب کیا ہے جو صاحب علم تھے، نیک نیت تھے مگر اپنے دور کی خصوصیات اور پچھلے ادوار کے اثرات سے بالکل محفوظ بھی نہ تھے۔ انہوں نے اسلام کے اصلی تصوف کو سمجھنے اور اس کے طریقوں کو جاہلی تصوف کی آلودگیوں سے پاک کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس کے باوجود ان کے نظریات میں کچھ نہ کچھ اثر جاہلی فلسفہ تصوف کے اور ان کے اعمال و اشغال میں کچھ نہ کچھ اثرات باہر سے لیے ہوئے اعمال و اشغال کے باقی رہ گئے، جن کے بارے میں ان کو یہ اشتباہ پیش آیا کہ یہ چیزیں کتاب و سنت کی تعلیم سے متصادم نہیں ہیں۔ یا کم از کم تاویل سے انہیں غیر متصادم سمجھا جاسکتا ہے۔ علاوہ بریں اس تصوف کے مقاصد اور نتائج بھی اسلام کے مقصد اور اس کے مطلوبہ نتائج سے کم و بیش مختلف ہیں۔ نہ اس کا مقصد واضح طور پر انسان کو فرائض خلافت کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور وہ چیز بنانا ہے جسے قرآن مجید نے ِلِتَکْونْوا شْھَدَائَ عَلَی النَّاس کے الفاظ میں بیان کیا ہے اور نہ اس کا نتیجہ ہی یہ ہوسکا ہے کہ اس کے ذریعے سے ایسے آدمی تیار ہوتے جو دین کے پورے تصور کو سمجھتے اور اس کی اقامت کی فکر انہیں لاحق ہوتی اور وہ اس کام کو انجام دینے کے اہل بھی ہوتے۔ اس تیسری قسم کے تصوف کی نہ ہم کلی تصدیق کرتے ہیں اور نہ کلی تردید۔ بلکہ اس کے پیروؤں اور حامیوں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ براہِ کرم بڑی بڑی شخصیتوں کی عقیدت کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے آپ اس تصوف پر کتاب و سنت کی روشنی میں تنقیدی نگاہ ڈالیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں۔ نیز جو شخص اس تصوف کی کسی چیز سے اس بنا پر اختلاف کرے کہ وہ اسے کتاب و سنت کے خلاف پاتا ہے تو قطع نظر اس سے کہ آپ اس کی رائے سے موافقت کریں یا مخالفت، بہرحال اس کے حق تنقید کا انکار نہ فرمائیں اور اسے خواہ مخواہ نشانہ ملامت نہ بنانے لگیں۔ (ترجمان القرآن، فروری 1952ء)