رسائل و مسائل

301

 

جماعت کے پیچھے تنہا نماز کا حکم
سوال : تنہا مقتدی اگر جماعت میں سب سے پیچھے نماز ادا کرے تو کیا اس کی نماز صحیح ہوگی؟
جواب: امام احمدؒ اور ابن ماجہؒ کی روایت ہے کہ نبیؐ نے ایک شخص کو جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز پڑھتے دیکھا۔ جب وہ شخص جانے لگا تو نبیؐ نے اس سے فرمایا کہ اپنی نماز کا اعادہ کرو کیونکہ تنہا پیچھے نماز پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی ہے۔
امام احمد بن حنبلؒ کی ایک دوسری روایت ہے کہ نبیؐ سے کسی نے اس شخص کی نماز کے بارے میں دریافت کیا جو جماعت میں سب سے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اسے اپنی نماز کا اعادہ کرنا چاہیے۔
یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دوسری صحیح احادیث ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز صحیح نہیں ہوتی ہے۔ چنانچہ سلف صالحین اور امام احمد بن حنبلؒ کا یہی مسلک ہے۔البتہ ان کے علاوہ تینوں ائمہ، یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا مسلک یہ ہے کہ اس کی نماز ادا ہوجائے گی مگر کراہت کے ساتھ۔
مذکور احادیث کی روشنی میں امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ حکمت اور اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہ ہو کیونکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جو اتحاد کی تعلیم دیتا ہے، جماعت کی رغبت دیتا ہے۔ جماعت سے کٹ کر رہنا اور شذوذ کا راستہ اختیار کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی دراصل مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق سکھانے کی عملی تربیت ہے۔ اب ظاہر ہے جو شخص اتحاد وجماعت کا راستہ چھوڑ کر شذوذ وانفرادیت کا راستہ اختیار کرے گا تو اس کا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے عین خلاف ہے اور اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔
بہرحال، یہ حکم اس حال میں ہے کہ جب کوئی شخص بے عْذر اور بغیر کسی سبب کے جماعت میں سب سے پیچھے تنہا نماز ادا کرے۔ البتہ اگر کسی عْذر کی بنا پر ایسا کرتا ہے، مثلاً یہ کہ صف مکمل ہوچکی ہو اور کوئی جگہ نہ ہو اور مجبوراً پیچھے تنہا ہی نماز ادا کرتا ہے، تو اس صورت میں اس کی نماز صحیح ہوگی۔ بعض علما کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں یہ بہتر ہوگا کہ وہ اگلی صف سے کسی شخص کو کھینچ کر پیچھے اپنے برابر میں کرلے، تاکہ اس صف میں ایک کے بجائے دو ہوجائیں۔ مگر بعض علما یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح اگلی صف سے کسی نمازی کو کھینچ کر پچھلی صف میں نہیں لانا چاہیے، اس سے اْس کی نماز میں توجہ متاثر ہوتی ہے۔
٭…٭…٭
پٹی بندھی ہونے کی حالت میں وضو
سوال: ہاتھوں میں یا انگلیوں میں پٹی بندھی ہو تو کیا اس پر وضو کرنا جائز ہے؟ کیونکہ پٹی کھول کر وضو کرنے کی صورت میں زخم کے بڑھنے یا مزید تکلیف دہ ہونے کا اندیشہ ہے؟
جواب: اگر وضو کی جگہ پر کٹنے، جلنے یا ایسی ہی کسی وجہ سے پٹی بندھی ہو تو اس پر مسح کرکے وضو کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔
فقہا کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ پٹی باندھنے سے قبل وضو کرنا ضروری ہے یا نہیں۔ لیکن میری نظر میں راجح قول یہ ہے کہ پٹی باندھنے سے قبل وضو شرط نہیں ہے۔ اگر اس نے وضو کے بغیر ہی پٹی باندھ لی ہو تو اس پر بھی مسح کرسکتا ہے۔