طلوع اسلام: افغان جہاد کی سیاسی تاریخ

1189

جب سوویت یونین افغانستان پر قابض تھا۔ تو ہمارے نام نہاد ترقی پسند اور لبرل صحافی اور دانشور حضرات بڑے فخر کے ساتھ یہ کہتے تھے کہ روس جب کسی ملک میں داخل ہوا ہے تو کبھی نہیں نکلا ہے۔ اس لیے وہ افغانستان سے بھی کبھی نہ جائے گا۔ بلکہ ان غلاموں کی تو خواہش یہ تھی کہ وہ پاکستان میں بھی آئے۔ لیکن اس وقت پاکستانی فوج، علماء، دینی جماعتیں اور عوام سب اس پر متفق تھے کہ ہمیں سوویت یونین کو افغانستان سے باہر نکالنا ہے۔ ہم اس وقت ان لبرل حضرات سے یقین کہ ساتھ کہتے تھے کہ سویت یونین یہاں سے ضرور نکلے گا۔ وہ افغانستان سے نکلا بھی اور ٹوٹ کر بکھر بھی گیا۔ اب اس کا اکیلا وارث روس ہے۔ اس فتح کے بعد جب امریکا نے یہ کوشش شروع کر دی کہ وہاں فاتح مجاہدین کی حکومت نہ بنے، اس وقت بھی ہم یہی کہتے تھے کہ امریکا اب قابض تو ضرور ہو جائے گا، لیکن ایک اور آزادی کی تحریک چلے گی اور اس کے بعد روس کے بعد امریکا بھی افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکرا کر چور ہو جائے گا۔ 9 سالہ جہاد کے نتیجے میں 15فروری 1989 کو سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا تھا۔ اس سے پہلے 14 اپریل 1988کو جینوا میں سوویت واپسی کے لیے ایک معاہدہ طے ہو چکا تھا جس پر سویت یونین، امریکا، پاکستان اور افغانستان کی اس وقت کی حکومت نے دستخط کیے تھے۔ لیکن اس معاہدہ کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ افغانستان میں اقتدار کی منتقلی کی کوئی تفصیل طے نہیں کی گئی تھی۔ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم محمد خاں جونیجو تھے۔ جنرل محمد ضیا الحق نے پاکستان میں جمہوریت بحال کر دی تھی۔ دستور پاکستان میں دیے گئے بنیادی حقوق پہلی بار بحال ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے تو دنیا کا انوکھا قانون سول مارشل لا لگا کر ملک چلایا تھا۔ گویا وہ ایک شخصی آمریت تھی۔ واضح رہے کہ 1973 کا دستور بھٹو دور میں ایک دن کے لیے بھی نافذ نہیں ہوا تھا۔ جونیجو صاحب نے اقتدار کی منتقلی کی تفصیل طے کیے بغیر سوویت انخلا کے معاہدے پر دستخط کردیے۔ اس پر جنرل محمد ضیاء الحق اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے محمد خاں جونیجو کو ہٹا کر پھر حکومت سنبھال لی۔
اب امریکا اور افغانستان کی اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کی جرنلیوں کی ٹیم کی یہ کوشش تھی کہ افغانستان میں حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کے اتحاد سے حکومت بنے۔ لیکن امریکا چاہتا تھا کہ افغانستان کی ایک درجن تنظیموں سے بات چیت ہو۔ پاکستان نے بھی ان میں سات تنظیموں کو تسلیم کیا ہوا تھا۔ ان تنظیموں کے سیاسی نظریات مختلف تھے اور کئی میں اسلام کی جگہ وطنیت اور لسانیت غالب تھی۔ امریکا کا اصل مقصد تھا افغانستان میں انارکی اور سیاسی افراتفری۔ تاکہ آخر میں امریکا اپنی پسند کی حکومت، اپنی پسند کی شخصیت کو مسلط کر کے اپنے ایجنڈا کو آگے بڑھا سکے۔ جنرل محمد ضیا الحق اور ان کے ساتھی جرنیلوں کا منصوبہ مختلف تھا۔ وہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام چاہتے تھے جو پاکستان سے اس طرح قریب ہو کہ جیسے وہ پاکستان ہی کا ایک صوبہ نظر آئے۔ ان کی نگاہیں وسط ایشیا تک تھیں۔ کراچی سے وسط ایشیا تک پاکستان کی اسٹرٹیجک گہرائی۔ یعنی مسلمانوں کا ایک وسیع سمندر جس میں بھارت کی حیثیت ایک چھوٹے سے جزیرہ کی رہ جاتی تھی۔
یہ حقیقت ہے کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد امریکا، سی آئی اے، پاکستان، آئی ایس آئی اور سعودی عرب کے امداد سے لڑی گئی تھی۔ رقم سی آئی اے کے ذریعہ آتی، اور آئی ایس آئی کے ذریعہ افغان مجاہد تنظیموں میں تقسیم ہوتی۔ یہ سب باتیں اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل حمید گل نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے مختلف انٹرویوز میں بتائی ہیں، اس لیے یہ سب اب کھلے راز ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مشرقی یورپ سے بھی اس کی گرفت کمزور پڑ گئی۔ دیوار برلن ٹوٹ گئی اور مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ مل گئے۔ اس کے بعد کے متحدہ جرمنی کے نئے چانسلر نے جنرل حمید گل کو دیوارِ برلن کی ایک اینٹ تحفتاً بھیجی تھی۔ اور لکھا تھا کہ یہ آپ ہی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
جہاد افغانستان کے مخالف لبرل حضرات جو ایسے تو امریکا ہی اب ان کا خدا ہے یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ تو امریکا کے مفاد کی جنگ تھی۔ اس میں اسلام اور پاکستان کہاں سے آگیا، تو اس بات میں آدھی اور اس سے بھی کم سچائی تھی۔ اصل سچائی یہ ہے کہ یہ اسلام اور پاکستان، اور افغانستان کے عوام کے مفاد کی بھی جنگ تھی۔ جس طرح سوویت یونین کا افغانستان میں ٹھیرنا اور اس کے بعد متوقع آگے بڑھنا یعنی پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی طرف جانا امریکا کے مفاد کے خلاف تھا اسی طرح وہ اسلام، مسلمان، اور پاکستان کے بھی خلاف تھا۔ ہمارا مفاد اسی میں تھا کہ سوویت یونین کو افغانستان میں روک دیا جائے۔ یعنی ان سب کے مفادات یکجا ہو گئے تھے۔ یہ دراصل اللہ کا پلان تھا اور اللہ کا پلان ایسا ہی ہوتا ہے کہ جسے سرخرو کرنا ہو اس کے لیے دنیا کی تمام طاقت کو ہموار کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی جو افغان جہاد کی مخالف تھی اس کی حکومت میں طالبان کو اٹھایا جاتا ہے اور کابل پر بٹھایا جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کہ لیے قرآن کی اس آیت کو سامنے رکھیں: ’’اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے‘‘ (سورہ آل عمران آیت 54 )۔ اور سیدنا موسیٰؑ کے قصے میںکہ جب ان کی پرورش بچپن سے نوجوانی تک فرعون کے دربار میں ہوئی۔ اور سیدنا یوسفؑ کے قصے میں کہ وہ کس طرح فلسطین کے ایک گائوں سے اس وقت کی ترقی یافتہ سلطنت مصر میں اور مصر میں بھی ملک کے سب سے با اثر عزیز مصر کے گھر پہنچے۔ سورہ یوسف پڑھ لیں۔ یہ سب وہ تدبیریں ہیں جس کے ذریعہ اللہ ایک کو گرانے اور دوسرے کو اٹھانے کا کام کرتا ہے۔
سوویت یونین کے جانے کے بعد امریکی اور پاکستانی مفاد کا ٹکرائو ہو گیا۔ جنرل ضیا الحق اور اس کی ٹیم کا خواب مختلف تھا۔ افغانستان کے تمام مجاہد رہنما اور کمانڈرز جنرل ضیا الحق اور جنرل حمید گل سے محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ اس خواب کو چکنا چور کرنے کے لیے اسلام اور پاکستان مخالف قوتوں کے پاس ان کو قتل کروانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ 17 اگست 1988 کو جنرل ضیا الحق اور اعلیٰ جنرلوں کو ایک جہاز میں بیٹھا کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ لوگ بھاولپور میں ایک تقریب میں شامل ہونے کے لیے گئے تھے اس تقریب کو جنرل محمود احمد درانی نے منعقد کرایا تھا اور جس میں امریکی فوجی ٹینک ایم آئی 1 کی فائرنگ کی کارکردگی کا مظاہرہ ہوا تھا۔ واپسی میں طیارے میں امریکا کے پاکستان میں سفارت کار آرنلڈ رافیل اور ملٹری اتاشی بریگیڈیر جنرل ہربرٹ ویسم کو بھی بٹھایا گیا تھا تاکہ کوئی شک نہ رہے۔ C-130 ہرکولیس میں آم کی پیٹیوں میں کیمیاوی بم رکھے گئے تھے جن سے جہاز کے عملے سمیت 30 مسافروں کا دم گھٹ گیا، اور جس کے نتیجہ میں طیارہ ستلج دریا کے قریب زمین پر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں جنرل ضیا الحق کے ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیف جنرل اختر عبد الرحمن اور کئی اعلیٰ فوجی افسران شہید ہو گئے۔ جنرل حمید گل اس طیارے میں نہیں تھے۔ بعد کے اپنے بہت سے انٹرویوز میں انہوں نے حادثہ کے لیے امریکا کی طرف اشارہ کیا تھا۔ نئے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ بنے۔ چیئرمین سینیٹ غلام اسحٰق خان قائم مقام صدر بنے۔ ملک میں جلد ہی انتخاب کرا دیے گئے۔ اور اس وقت کی امریکا کی ڈارلنگ بے نظیر بھٹو کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت 2 دسمبر 1988کو قائم ہو گئی۔ بے نظیر بھٹو نے ہر وہ کام کیا۔ جو امریکا کی مرضی تھی۔ وہ جہاد افغانستان کی مخالف تھیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں دفاع کے شعبہ میں اور خارجہ سرگرمیوں کے حوالے سے، جیو پالیٹکس میں، جو کچھ پاکستان نے حاصل کیا تھا، ایک ایک کر کے اسے ختم یا خراب کرتی چلی گئیں۔
پاکستان اس وقت حالت جنگ میں تھا، اور پاکستان کی فوج الیکشن کرانے پر راضی نہ تھی۔ جونیجو صاحب کو حکومت دے کر محدود جمہوریت بحال کرنے کا تجربہ بھی اچھا نہیں تھا۔ سیاسی جماعتوں کا دبائو جنرل ضیا الحق پر بڑھ رہا تھا۔ لیکن جنرل ضیا الحق اپنی بلا کی سیاسی ذہانت اور سیاسی چالوں سے ان سب کا مقابلہ کر رہے تھے اور کوئی جماعت، اور سب مل کر بھی ان کے خلاف، کوئی موثر تحریک نہ چلا سکی تھی۔ پیپلز پارٹی نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اس وقت فوج میں جنرل حمید گل ہی ایک ایسے شخص رہ گئے تھے جن کی افغان مجاہدین کے تمام دھڑے، تمام لیڈرز، اور تمام کمانڈرز قدر کرتے تھے۔ پہلے جنرل ضیا الحق کی شہادت اور اب جنرل حمید گل کے جانے کے بعد سب کچھ بکھر گیا تھا۔ گویا
اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
افغانستان کے تمام دھڑے اور علاقائی کمانڈرز ملک میں زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جنگ پر اتر آئے۔ امریکا یہی چاہتا بھی تھا۔ ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جرائم بڑھے، بدامنی بڑھی، معاشی طاقت حاصل کرنے کے لیے مختلف کمانڈرز کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہیروئن کی کاشت اور کاروبار بڑھی اور عورتوں کے خلاف جنسی جرائم بڑھے۔ اس صورت حال میں، ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علماء کھڑے ہوئے اور ان کی قیادت میں دینی مدارس کے طلبہ کھڑے ہوئے، اسی لیے اس کا نام تحریک طالبان ہے۔ یہ تحریک قندھار سے شروع ہوئی۔ علماء نے ملا محمد عمر کو اپنا امیر بنایا۔ ملا عمر دارالعلوم حقانیہ، خیبر پختون خوا پاکستان کے طالب علم رہے۔ مولانا سمیع الحق اسی دارالعلوم کے چانسلر تھے۔ انہیں پاکستان میں طالبان کا سرپرست اعلیٰ کہا جاتا تھا۔ انہیں بھی 2 نومبر 2018 کو شہید کر دیا گیا۔
ملا محمد عمر کے پردادا، دادا، والد سبھی عالم دین تھے۔ تقویٰ اور پرہیزگاری میں ان کا اعلیٰ مقام تھا۔ ملا عمر بہت عبادت گزار اور تلاوت قرآن کی پابندی کرنیوالے تھے۔ ان کے چہرے پر ایک ایسا نور تھا جو ملنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا تھا۔ افغانستان میں امر بالمعروف اور نہی عنی المنکر کے دو سال کی جدوجہد کے بعد 27 ستمبر 1996کو کابل پر ان کی حکومت قائم ہو گئی جو 13نومبر 2001 تک قائم رہی۔ اس درمیان میں طالبان نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں آبادی کو غیر مْسَلَّح کیا، شریعت نافذ کی، جس کی وجہ سے سوسائٹی میں جرائم کا خاتمہ ہوا، اور مکمل امن قائم ہو گیا۔ انصاف کا قیام عمل میں آیا۔ افغانستان میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی لگی اور سختی کے ساتھ اسے روک دیا گیا۔ افغانستان کی افیون کی عالمی تجارت میں مشہور بین الاقوامی خفیہ ایجنسیاں شامل تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افیون کی کاشت اور کاروبار پر پابندی کی وجہ سے بھی یہ ایجنسیاں تحریک طالبان سے دشمنی پر اتر آئی تھیں۔
افغان مجاہدین کے مقابلے میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کو غالباً اس نقطہ نظر سے قبول کیا گیا تھا کہ افغان مجاہدین کے اسلام کے عالمی اپیل کے مقابلے میں طالبان کی اپروچ مقامی ہوگی۔ وہ فْرْوعی معاملات پر زیادہ تَوَجہ کریں گے۔ وہ ڈاڑھی کے سائز اور ٹخنہ سے اوپر پاجامہ کی پیمائش میں لگے رہیں گے، اور امریکا اپنے تجارتی اور سیاسی مفادات کو حاصل کر لے گا۔ لیکن امریکا کی امید بر نہیں آئی۔ تاپی گیس پائپ لائن جو ترکمانستان، افغانستان پاکستان سے گزر کر انڈین اوشین تک آنا تھا۔ اس جیسے بظاہر معمولی مسئلہ پر بھی امریکی شرائط پر طالبان سے معاہدہ نہ ہو سکا۔ اسلام کا تصور حریت اور افغانی غیرت آڑے آگئی۔ اور اس کے بعد طالبان کو امریکا اور پاکستان دونوں نے تنہا چھوڑ دیا۔
امریکا نے پچاس ملکوں کے ساتھ اکتوبر 2001 میں اس پر حملہ کیا اور فضائی بمباری کے ذریعہ وسیع تباہی پھیلا کر کابل پر ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی۔ پوری دنیا طالبان کے خلاف ہو گئی۔ بیس سال کے جہاد کے بعد طالبان پوری دنیا کو جس کی کمان امریکا کے ہاتھ میں تھی، شکست دے چکا ہے۔ 31 اگست کو امریکا اور دیگر ممالک کا ایک ایک فوجی نکل چکا ہے۔ کابل ائر پورٹ کا کنٹرول اب طالبان کے پاس ہے۔ کابل کی فضا اللہ اکبر اور سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ طالبان نے افغانستان میں عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کو بھی، بشمول حملہ کرنے والے ممالک کو بھی معاف کر دیا ہے۔ اور سب کو سفارتی تعلقات بحال رکھنے، کاروباری طبقہ کو آنے اور سرمایہ کاری کرنے کے لیے کہا ہے۔ اور ایک پر امن خوشگوار فضا بنائی ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ امکان یہی ہے کہ باطل طاقتیں اسے سکون سے چلنے نہیں دیں گی۔ مدینہ کی ریاست بنی تو اللہ کے رسولؐ نے میثاق مدینہ کیا جس میں مدینہ کے اطراف کی تمام یہودی بستیوں کو شامل کیا اور ہر اس گروہ اور قبیلہ کو شامل کیا جو اصل دشمن قریش مکہ کے حملوں میں ان کا ساتھ دے سکتے اور مدینہ کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کر سکے یا کم از کم نیوٹرل رہے۔ میثاق مدینہ میں باہر کے لوگوں کو مدینہ کی شہریت حاصل کرنے کی بھی صرف ایک شرط رکھی گئی تھی اور وہ یہ کہ جو مدینہ میں رہنے کا خواہش مند ہو، وہ مدینہ میں رہ سکتا ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو سکتا تھا۔ اسے مذہبی آزادی حاصل تھی۔ لیکن ان سب کے باوجود اس چھوٹی سی ریاست کو مٹانے کے لیے کیا کچھ کیا گیا تھا وہ سیرت کی کتابوں میں درج ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان کی طرف سے جو پہلا اعلان ہوا ہے وہ میثاق مدینہ سے بہت ملتا جلتا ہے۔