تبدیلی کے ثمرات نہیں نااہلی کے اثرات

415

وزیراعظم عمران خان بار بار یہ کہتے ہیں کہ تبدیلی آنے میں وقت لگے گا۔ ملک درست سمت میں چل پڑا ہے۔ معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ اثرات عوام تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ لیکن تین سال گزرنے کے باوجود تبدیلی اور معیشت کی بہتری کے ثمرات عوام تک اب بھی نہیں پہنچے۔ معیشت استحکام کی جانب جانے کے بجائے تنزلی کی جانب جا رہی ہے۔ معیشت کے جتنے اشاریے ہیں وہ سب منفی نظر آرہے ہیں۔ بار بار یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ برآمدات بڑھ گئی ہیں، فلاں چیز کی برآمدات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک بار پھر ادارہ شماریات نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ 7.49 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے اور اس حوالے سے ماضی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ اگست میں برآمدات میں 4.53 فیصد کمی ہوئی ہے۔ جبکہ درآمد میں 15.39 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ پاکستان کی اہم برآمدات مچھلی، آلات جراحی، خیمے اور لکڑی کی اشیا کی برآمدات کم ہو گئیں۔ یہ صرف ایک اشاریہ ہے اس کے لیے دس جواز گھڑے جا سکتے ہیں کہ ملک میں ترقی ہو رہی ہے اس لیے بیرون ملک سے آلات اور مشینری درآمد ہو رہی ہے تو توازن بگڑنا ہی تھا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن معاملہ کچھ اور بھی ہے۔ ملک میں چینی مافیا کو کس نے کھلی چھوت دے رکھی ہے۔ جب چینی مافیا نے چینی مہنگی کی تو وزیراعظم نے تحقیقات کرائی تھی اور چینی مافیا کے نام سامنے آگئے لیکن مصیبت یہ ہوئی کہ چینی مافیا میں شامل اپنے لوگوں کی بڑی تعداد تھی۔ چنانچہ چینی مافیا کے خلاف کارروائی نہ ہو سکی۔ اور اب چینی کی قیمت 115 روپے کلو تک پہنچ گئی جس میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ہے اور خدشہ کیا حکومت کے جو انداز ہیں ان کو دیکھتے ہوئے تو یہی یقین سے کہاجا سکتا ہے کہ چینی جلد 125 روپے کلو تک پہنچ جائے گی۔ چینی ہی کو کیوں لیا جائے خوردنی تیل کی قیمت بھی اسی طرح دگنا سے زیادہ ہو چکی ہے۔ عوام کی قوت خرید میں تو اضافہ ہوا نہیں لیکن ان پر مہنگائی کا کوڑا جس طرح برس رہا ہے اس کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہیں کہ عوام مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں۔ ان سب سے اوپر کورونا کی پابندیاں ہیں لاک ڈائون ہے۔ غیر ضروری اور نمائشی لاک ڈائون بھی ہے۔ اس لاک ڈائون کو جس بے دردی سے استعمال کیا گیا اور جس بدانتظامی سے استعمال کیا گیااس نے غریب عوام کی کمر توڑ دی۔ حکومت کے ادارے لاک ڈائون کو کبھی کمائی کا ذریعہ بنا کر لوٹ مار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ٹھیلے والوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ اگر تبدیلی اور دعوئوں کا موازنہ کیا جائے تو حکومت کی کارکردگی صفر سے بھی کم ہی نکلے گی۔ کیونکہ ہر پیمانے کے مطابق تین سال پہلے اور آج میں زمین آسمان کا فرق ہے جس طرح تجارتی خسارے کا ریکارڈ ٹوٹا ہے اسی طرح بیرونی قرضوں کا ریکارڈ بھی ٹوٹا ہے۔ جتنے قرضے سابقہ حکمرانوں نے مجموعی طور پر لیے تھے اس سے زیادہ پی ٹی آئی حکومت صرف تین سال میں لے چکی ہے۔ پیٹرولیم مافیا بھی چینی مافیا کی طرح آزاد ہے اس کی وجہ سے پیٹرول بھی 120 روپے تک پہنچ گیا تھا۔اب حکومت نے مہربانی کی ہے اور پیٹرول 118 روپے فی لیٹر تک پہنچا ہوا ہے۔ جب پیٹرول مہنگا اشیائے خورونوش مہنگی، بیروزگاری میں اضافہ، غیر ملکی قرضوں میں اضاف ہوگا تو ترقی کے ثمرات کہاں سے ملیں گے۔ یہ تو حکومتی نااہلی کے اثرات ہیں جو تیزی سے عوام کو متاثر کر رہے ہیں۔ جس رفتار سے عوام دبائو میں آ رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیراعظم کا یہ دعویٰ درست ہو جائے گا کہ چیخیں نکلوا دوں گا۔ اگر حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر نہ ڈال سکی ہو۔ برآمدات میں اضافہ نہ کر سکی ہو، روزگاری کے مواقع پیدا نہ کر سکی ہو، امن وامان پر قابو نہ پاسکی ہو تو ایسی حکومت کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ یہ ناکام حکومت ہے، لیکن ان خرابیوں کے ساتھ ساتھ بڑی خرابی یہ ہے کہ ملک کے نظم و نسق کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی حکمرانوں میں نہیں رہی ہے۔ کوئی شعبہ ہو ان سے نہیں سنبھل رہا ہر شعبے میں تباہی ہو رہی ہے۔ حکومت نے تین سال سابق حکمرانوںکا تعاقب کرتے ہوئے گزار دیے۔ عوام کی فلاح کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ اب اس میدان میں ناکامی کے بعد البتہ اجلاس طلب کرنے اور کارکردگی کے جائزے کی باتیں تو ضرور ہو رہی ہیں لیکن عمل اس میں بھی نہیں ہو رہا ہے حکومت کی بدانتظامی اور نااہلی کے نتیجے میں ملک کے صوبوں خصوصاً سندھ اور مرکز کے درمیان تعلقات مسلسل کشیدہ ہیں۔ صوبوں کے مابین ہم آہنگی ہوگی تو ملکی ترقی کے کام ہو سکیں گے۔ اب وزیراعظم نے کہا کہ سب سے بڑی ضرورت ملکی دولت میں اضافہ کرنا ہے اور ہماری جنگ کرپٹ سسٹم کے خلاف اور قانون کی بالادستی کے لیے ہے۔ انہوں نے پھر سمندر پار پاکستانیوںکو سرمایہ کاری کے لیے پکارا ہے لیکن وہ انہیں صرف ووٹ کا حق تو دلا نہیں سکے ان سے سرمایہ کاری کی بات کر رہے ہیں۔یہ بیرونی ملک پاکستان کم وبیش 30 برس سے ووٹ کے حق کے جھانسے میں ہیں ان کو یہ حق کب ملے گا۔