ڈی جی آئی ایس آئی کا اہم دورہ کابل

461

کچھ تاخیریہی پاکستان کی جانب سے طالبان کے ساتھ سرکاری سطح پر براہ راست رابطہ کرلیا گیا۔ پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی کابل پہنچ گئے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید طالبان شوریٰ کی دعوت پر گئے اور ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں پاک افغان اقتصادی اور تجارتی تعلقات، سیکورٹی اور سرحدی امور پر بھی تفصیل سے مشاورت ہوئی۔ طالبان کی جانب سے نہایت خوش کن پیغام ملا کہ پاکستان قابل بھروسا ملک ہے اور اہم نکتہ بھی بیان کردیا کہ قیام امن کے لیے پاکستان کا تعاون چاہتے ہیں۔ اور پاکستانی ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی صحافیوں کے سوال کا یہ جواب دیا کہ پریشان نہ ہوں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان جن امور پر بات ہوئی ان میں ہوائی اڈوں کی تعمیر نو، ڈیورنڈر لائن پر پناہ گزینوں کی حالت زار بھی شامل ہیں۔ جس چیز سے دونوں ملک پریشان ہوسکتے ہیں وہ دونوں ملکوں میں موجود ایک دوسرے کے دشمن گروہ ہیں اس حوالے سے طے پایا کہ ایسی کسی تنظیم کو صورت حال کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ طالبان ترجمان نے براہ راست گفتگو میں ان خبروں کی بھی تردید کردی جو گزشتہ کئی روز سے گشت کررہی تھیں کہ طالبان حکومت بنانے والے ہیں دو روز میں بن جائے گی۔ پھر موخر کرنے کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے طالبان کی دعوت پر دورے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں موجود سول حکمرانوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ دورہ اگر وزیراعظم نہیں تو وزیرخارجہ اور وزیر داخلہ پاکستان کے ساتھ ہوتا تو وہ دعویٰ سچا نظر آتا کہ پاکستان کے اندرونی بیرونی اور سیکورٹی معاملات میں سویلین اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں۔ اگر طالبان ہی نے پاکستان کی سویلین قیادت کو اس قابل نہیں سمجھا کہ انہیں کسی ملاقات میں بلایا جائے تو بڑھکیں مارنے والی حکومت کے سربراہ اور وزراء اس ملاقات میں اپنا چہرہ بھی دیکھ لیں۔ یہ بات درست ہے کہ سویلین حکومت کی موجودگی میں ڈی جی آئی ایس آئی کا کابل جانا پاکستانی سویلین حکومت کی اصل حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ اور یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ پاکستانی سویلین قیادت جس قدر غیر سنجیدہ ہے اس کی بیان بازیوں سے پاکستان اور افغانستان کی نئی قیادت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی تھیں۔ افغان صورت حال پر وزیراعظم عمران خان نے معتدل اور محتاط بیانات دیے تھے ورنہ عمران خان کی کابینہ نے رنگ برنگے بیانات دے کر حالات خراب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اس لحاظ سے ڈی جی آئی ایس آئی کا تنہا جانا ہی پاکستان کے لیے بہتر تھا۔ ویسے بھی معاملات ہیں تو فوج ہی کے ہاتھ میں۔ ان امور سے قطع نظر جو آنے والے حالات ہیں ان کو سامنے رکھا جائے تو ڈی جی آئی ایس آئی کا دورہ پاک افغان تعلقات اور خطے کے امن کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً پاکستان کے کسی عمل سے بھارت کو تکلیف پہنچے تو اس سے اس عمل کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چناں چہ جوں ہی ڈی جی آئی ایس آئی کابل پہنچے بھارت نے رونا دھونا شروع کردیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی افغان حکومت بنوانے گئے ہیں۔ طالبان حکومت میں کون ہونا ہے اور کون نہیں، کس کو شامل کیا جائے اور کس کو نہیں یہ خالصتاً ان کا اپنا مسئلہ ہے، اگر پاکستان بھی اس میں مداخلت کرے گا تو معاملات خراب ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بھارت کی تکلیف اپنی جگہ پاکستان مشورہ ضرور دے سکتا ہے، لیکن مجبور تو نہیں کرسکتا۔ طالبان کی جانب سے جو چیز سب سے اچھی ہے وہ پاکستان کو قابل بھروسا ملک قرار دینا ہے اور قیام امن کے لیے پاکستان کی مدد طلب کرنا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور طالبان قیادت میں اقتصادی تعلقات، تجارت، ہوائی اڈوں کی تعمیر نو وغیرہ کی بات ہوئی ہے اور یہ پاکستان کے لیے بھی بہت اہم ہے، اس کے ذریعے پاکستان کا عمل دخل افغانستان میں بڑھے گا۔ دوستی مضبوط کرنے کے مواقع بھی بہتر ہوجائیں گے۔ تاہم ایک دو امور قابل توجہ ہیں، دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں مبہم بات کی گئی ہے کون سی تنظیم دہشت گرد ہے اور کون سے لوگ دونوں ملکوں کے دشمن ہیں اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ اس خبر کے ساتھ آرمی چیف کا بیان بھی شائع ہوا ہے کہ فوج کشمیر کاز کے ساتھ کھڑی ہے، یہ کشمیریوں کی ہمت افزائی کرنے والا بیان ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جس طرح فوج افغانستان کی طرف ازخود پیش رفت کررہی ہے تو اسی طرح کشمیر کی طرف بھی ازخود پیش رفت کرلے۔ یقینا فوج سوچ سمجھ کر حکمت کے ساتھ پیش رفت کرے گی۔ لیکن کشمیر پر پسپائی یوٹرن اور کسی قسم کی سودے بازی کو قوم تسلیم نہیں کرے گی۔ جہاں تک طالبان اور پاکستان کے درمیان تجارت وغیرہ کی بات ہوئی ہے وہ خوش آئند ہے لیکن اگر طالبان پاکستان میں بھی اسلامی شرعی نظام کی بات کرتے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھی صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنانے کا مشورہ دیتے یا یہ مشورہ پاکستان کی جانب سے مانگا جاتا تو اچھا ہوتا۔ اور یہ پاکستان میں مداخلت بھی تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ مشورہ مانگتا کون اور دیا کس کو جاتا… یہ بڑا اہم سوال ہے۔