پاکستان طالبان حکومت تسلیم کرنے کیلئے سوچ بچار اور عالمی رہنمائوں کو قائل کررہا ہے

337

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) پاکستان طالبان حکومت تسلیم کرنے کے لیے سوچ بچار اور عالمی رہنماؤں کو قائل کر رہا ہے‘ پاکستان خود کو اور افغانستان کو دنیا سے الگ تھلگ ہونے سے بچانے اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ بھارت طالبان کو بدنام کرنے میں مصر وف ہے‘ طالبان نے لچک نہ دکھائی تو سیاسی حل کے لیے سنجیدہ مذاکرات التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل امیر العظیم، امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی اور وائس آف امریکا کے ایاز گل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں تاخیر کیوں کر رہا ہے؟ امیر العظیم نے کہا کہ پاکستان کو سب سے پہلے افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کر نا چاہیے اور اس کے بعد پوری دنیا سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ بھی طالبان حکومت تسلیم کرے لیکن اس کے برعکس پاکستان عالمی برادری کو خوش کر نے کی فکر میں نظر آرہاہے اور طالبان سے مختلف مطالبات کر رہا ہے‘ امریکا اور اس کے اتحادی اپنے 20 سال کے جرائم کو چھپانے کے لیے طالبان سے یہ معلوم کر رہے ہیں کہ وہ کس طرح حکومت کریں گے‘ ان کا رویہ خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ کیسا ہو گا‘ امریکا، اس کے اتحادیوں اور ان کی کٹھ پتلی افغان حکومتوں نے لاکھوں افغانوں کو کس قانون کے تحت قتل کیا ہے‘ عالمی برادری امریکا کی شکست کے باوجود سازش میں مصروف ہے اور افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمہ کے لیے کام کر رہی ہے‘ بھارت ان کے ساتھ ہے‘ پاکستان کو دنیا کے سامنے اس کا توڑ کر نے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان توڑ کر نے کے بجائے عالمی برادری کے ساتھ ہے ‘ ان کے لیے کام کر نے کی کوشش کر رہا ہے‘ پاکستان کو عالمی برادری کو بتانا ہو گا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا‘ بھارت افغان طالبان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے میں مصروف ہے اور وہ اس میں کسی حد تک کا میاب بھی ہو رہا ہے‘ پاکستان کے لیے موقع ہے وہ عالمی سطح پر اپنے لیے راستہ بنائے لیکن پاکستان جان بوجھ موقع سے فائدہ نہیں اُٹھا رہا ہے ۔امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے کہا کہ پاکستان اب بھی افغانستان کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر افغان مسئلے کا حل تلاش کر ے‘پاکستان اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اور افغانستان دنیا سے الگ تھلگ نہ ہو جائیں‘ دنیا میں رہنے کے لیے عالمی برادری کو ساتھ لے کر چلنا ہو تا‘ تحریک طالبان پاکستان کااب کہیں وجود نہیں ہے اس لیے پاکستان کو اس سے خوفزدہ ہو نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ہے‘ افغانستان کے حالات اور افغانستان کے مستقبل کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی ہوگا‘طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد امید ہوئی ہے کہ خطے میں امن قائم ہو جائے گا‘ طالبان نے لچک نہ دکھائی تو سیاسی حل کے لیے سنجیدہ مذاکرات التوا کا شکار ہوسکتے ہیں۔ملیحہ لودھی نے کہا کہ امن و استحکام کے لیے افغانستان پاکستان ایکشن پلان کرنے کی ضرورت ہے‘ پاکستان اور افغانستان کی تقدیریں آپس میں جڑی ہوئی ہیں‘ افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان اور خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے‘ عالمی برادری نے بھی پاکستان کے مثبت کردار کو سراہا ہے‘ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ افغانستان کے مسائل کا حل فوجی مہم جوئی میں نہیں ہے‘چین نے بین الاقوامی برادری سے کہا تھا کہ طالبان کی مثبت سمت کی طرف حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنی چاہیے ناکہ ان پر مزید دبائو ڈالا جائے‘ پاکستان افغانستان میں مخلوط حکومت کے قیام کے لیے کوششیں کر رہا ہے‘مغربی ممالک بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق باہمی طور پر فیصلہ کریں گے‘ اگلے ہفتے گروپ جی سیون کا اجلاس ہوگا‘ یہ رہنما طالبان کے لیے اہداف کا تعین کریں گے جن کو پورا کرنے پر یہ ممالک سفارتی طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کر سکتے ہیں‘ پاکستان بھی عالمی برادری سے طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کے عالمی رہنماؤں کو قائل کر رہا ہے‘ پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں جس قدر تاخیر کر ے گا اس کا اتنا ہی نقصان ہو گا۔وائس آف امریکا کے ایاز گل کا کہنا ہے کہ ماضی میں افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی جاتی رہی ہے ‘پاکستان نے اسی لیے افغان طالبان سے یہی کہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے مطلوب افراد کو پاکستان کے حوالے کر ے اور اس پر ایک معاہدہ بھی ہوا ہے‘ اس کے علاوہ ابھی تک افغان طالبان نے اپنی کابینہ کا اعلان نہیں کیا ہے‘ افغان طالبان کا کہنا ہے جب تک ایک بھی غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود ہے‘ ہم مکمل طور پر آزاد نہیں ہیں جیسے ہی غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہو جائے گا تو اس کے فوری بعد کابینہ کا اعلان کر دیا جائے گا ‘اس طرح 31 اگست تک کا وقت پاکستان کے پاس بھی ہے‘ اشرف غنی دور میں کہا جا رہا تھا کہ طالبان کے افغانستان پر مکمل قبضے کے بعد بھی پاکستان کو نقصان ہوگا اور اس کا اظہار خود حکومتی عہدیدار کرتے رہے ہیں کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان بھی افغان طالبان کا حصہ ہے‘ پاکستان کو اندرونی طور پر خطرات کا سامنا ہے‘ اگر افغان طالبان کابل پر کنٹرول کی جنگ میں ناکام ہوتے ہیں اور طویل خانہ جنگی افغانوں کا مقدر بنتی ہے ‘تب بھی پاکستان خطے میں اس عدم استحکام کا متحمل نہیں ہے لیکن اب ایسا نہیں ہے اور افغان طالبان ٹی ٹی پی کے لوگوںکو پاکستان کے حوالے کر نے پر راضی ہے‘پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے سوچ بچار میں مصروف ہے اور وہ اپنے اتحادیوں سے رابطے میں ہے۔