ایک نئی مزاحمت کا خواب

789

افغانستان میں طالبان کی مزاحمت کا خواب بہت سی آنکھوں میں مچل رہا ہے۔ یہ آنکھیں افغانستان کے اندر بھی ہیں مگر اس سے زیادہ باہر والوں کو اس خواب کی تعبیر کی جلدی ہے۔ بنیا مزاج قوموں کا خیال ہے کہ دنیا کا ہر کام پیسہ پھینک کر کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں کامیابی اور فتح کی ہر راہ روپے پیسے سے ہو کر گزرتی ہے۔ بنیا مزاج کی اس سوچ نے امریکا کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور امریکا افغانستان میں اپنے طویل المیعاد مقاصد کی تکمیل کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہاتا چلا گیا۔ ایک فوج بھی کھڑی ہوئی۔ آنکھوں کو خیرہ کرنے والے کئی بڑے ترقیاتی منصوبے بھی بنے مگر جب وقت کا ریلا چلا تو فوج کاغذ کے سپاہیوں کا لشکر ثابت ہوئی۔ وجہ یہ ہے کہ پیسہ تو خرچ کرنے والوں نے بے تحاشا خرچ کیا مگر لڑنے کا جذبہ اور مزاحمت کا مادہ تو کسی بازار سے دستیاب ہونا تھا نہ ہوا اور یوں وقت پڑنے پر سارا سسٹم ریت کا گھروندہ ثابت ہوا۔ جنوبی ایشیا کی بنیا ذہنیت پھر ڈالر فلاسفی کے تحت امریکا اور یورپ کو اس دلدل میں کھینچ لانا چاہتی ہے جہاں سے وہ تار تار دامن کے ساتھ جانیں بچا کر نکلے ہیں۔ اب اس ذہنیت کی امید وادیٔ پنج شیر سے وابستہ ہے۔
بھارت کے ٹی وی چینلز نے وہ چیخ وپکار مچائی ہے کہ خدا کی پناہ۔ جنرل بخشی زخمی شیر کی طرح اپنے ملک اور حکومت کی پالیسیوں پر دھاڑ رہے ہیں۔ وہ بھارت کا مذاق اُڑا کر دل کے پھپھولے جلا رہے ہیں۔ ایک اور میجر اور دفاعی تجزیہ نگار جو پاکستان کے اندرونی معاملات پر اکثر لاف زنی کرتے نظر آتے ہیں افغانستان میں پٹ جانے والی بنیا پالیسی اور ڈالر فلاسفی کا احیاء کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’آپ پنج شیر والوں سے پوچھیں طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے کتنی رقم چاہیے وہ جو بولیں اس کی دگنی دیں اور ایک مزاحمت کا آغاز کریں۔ طالبان کے ذرائع آمدن کا کسی کو اندازہ نہیں مگر افغانستان پر امریکا اور بھارت نے جو سرمایہ کاری کی وہ ان کے بہی کھاتوں میں درج ہے۔ یہ سرمایہ کھربوں ڈالر سے کم نہیں۔ بلاشبہ اس کا ایک حصہ واپس متعلقہ ملکوں کے افسروں اور نگرانوں کے اکائونٹس میں واپس گیا ہوگا۔ اس کے بعد افغانستان کا طبقہ اشرافیہ اور پھر نچلے درجے کے مڈل مین، ٹھیکیدار اور دوسرے لوگ اس بہتی گنگا سے مستفید ہوئے ہوں گے۔ پیسے کا سیلاب برپا کرکے بھی بیس سال بعد امریکا اور بھارت تہی دست وتہی داماں ہیں۔ اب انہیں ایک نئی مزاحمت کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔ پنج شیر کی وادی سوویت فوجوں سے طالبان تک سب کے لیے ایک ناقابل تسخیر علاقہ رہی ہے۔ اب زمانہ بھی بدل گیا اور حالات بھی۔ پنج شیر وادی نے امن کا ذائقہ چکھ لیا ہے۔ یوٹیوب پر پنج شیر کی وڈیوزسے اندازہ ہوتا ہے کہ نائن الیون کے بعد پنج شیر وادی میں امن کے باعث سڑکیں، ڈیم اور دیدہ زیب عمارتیں بنیں۔ خوبصورت نیلگوں کے دریا کے ساتھ ساتھ گزرنے والی شاہراہ کے کناروں پر احمد شاہ مسعود، مارشل فہیم اور دوسرے گوریلا لیڈروں کی تصاویر آویزاں ہیں جو سنگلاخ اور چٹیل پہاڑوں کے درمیان اس وادی میں مخصوص اثر رسوخ کو ثابت کر تی ہیں جو قطعی غیر فطری نہیں۔ پنج شیر تاجک آبادی کا گڑھ ہے اور تاجک افغانستان کی دوسری بڑی نسلی اکائی ہیںاور اس اکائی میں جدید مزاحمت کی علامت احمد مسعود اور ان کے ساتھی ہیں۔
آج کے طالبان کی ترجیح جنگ نہیں امن معلوم ہو رہی ہے اسی لیے وہ پنج شیر وادی میں اپنی عمل داری قائم کرنے کے لیے حد درجہ صبر سے کام لے رہے ہیں۔ وقت نے انہیں بہت کچھ سکھا دیا ہے صرف انہی کو نہیں بلکہ پنج شیر کے باسیوں سے امریکا اور مغرب تک ہر کسی کو نئے سبق پڑھائے ہیں۔ احمد مسعود نے جب طالبان کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا تو فرانس کے ساتھ پہلے سے ان کے گہرے روابط تھے۔ بھارت کے ساتھ انہوں نے تاجکستان میں
معاہدہ کیا اور تاجکستان نے بھارت کو شمالی اتحاد کی مدد کے لیے سہولتیں مہیا کیں۔ اس وقت روس، ایران طالبان کے ہاتھوں زخم کھائے ہوئے تھے۔ روس کا مطلب وسط ایشیائی ممالک تھے۔ ترکی طالبان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس لیے بھارت کا شمالی اتحاد کی مدد کا فیصلہ طالبان کی سخت گیری اور پاکستان کی چھاپ کی وجہ سے دنیا کے لیے قابل قبول پایا۔ اب زمانہ خاصا بدل گیا اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان سے رخصت کرنے کی کوششوں کو چار بڑے علاقائی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ ان میں روس، چین، ایران اور پاکستان شامل تھے۔ روس نے دس برس قبل طالبان سے راہ ورسم بڑھا لیے تھے۔ ایران نے بھی طالبان کو ایک حقیقت کے طور قبول کرلیا تھا۔ طالبان کے سربراہ ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے وقت ڈرون حملے کا نشانہ بنے تو اس میں کئی معانی پنہاں تھے۔ ان کے پاسپورٹ پر چینی ویزوں کی مہریں ایک ایسی کہانی سنا رہی تھیں جس میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ناکامی کا پیغام تھا۔ ایران نے ایک سرکاری ذریعے سے افغانستان کے ہزارہ راہنمائوں پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ کسی بھی خانہ جنگی میں حصہ دار بننے کی صورت میں ہونے والے نقصان کے وہ خود ذمے دار ہوں گے۔ اسماعیل خان جیسے سخت گیر ہزارہ کمانڈروں نے ایران کے بدلے ہوئے رویے سے مایوس ہو کر مزاحمت ترک کرکے خود کو
طالبان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔
روس کے طالبان کو قبول کرنے کا مطلب وسط ایشیائی ریاستوں کا بدل جانا ہے۔ یہی عناصر شمالی اتحاد کی طاقت اور مزاحمانہ جذبے کا راز ہوا کرتے تھے۔ اس بدلی ہوئی فضا میں بھارت فقط پیسہ پھینک کر پنج شیر میں کوئی مزاحمت کھڑی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا ہاں صر ف طالبان ہی طالبان کے خلاف مزاحمت کھڑی کر سکتے ہیں۔ دوسروں کو ساتھ لے کر نہ چلنے اور دوسروں کے وجود کا انکار کرکے مگر اس بار طالبان واقعی بدل گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی طالبان کے مخالف بھی بدل گئے ہیں اور بھارت اس کھیل میں تنہا رہ گیا ہے۔