افغانستان کی موجودہ صورت حال اور خطے کی معیشت

694

گزشتہ پندرہ دن سے افغانستان پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ شروع میں اس بات پر ہر طرف حیرانی اور تعجب کا اظہار کیا گیا کہ کس طرح ستر اسّی ہزار طالبان جوانوں نے افغان حکومت میں موجود امریکا سے تربیت یافتہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ساڑھے تین لاکھ فوج کو شکست دے کر پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ پھر طالبان کی سوچ اور رویے پر خصوصاً خواتین کے معاملے میں شکوک و شبہات پھیلائے جانے لگے مگر طالبان کی پہلی پریس کانفرنس سے اِن افواہوں کے بادل چھٹ گئے۔ اس کے بعد تمام تجزیہ کاروں، تبصرہ نگاروں اور صحافیوں کی جانب سے اس خطرے کا اظہار شروع ہوگیا کہ افغانستان میں موجود تمام قوموں اور قوتوں کو ساتھ لے کر وسیع البنیاد مرکزی حکومت بنانا طالبان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگر متحارب گروپ باہم دست و گریبان ہوگئے تو افغانستان میں امن و استحکام کا قیام ایک خواب بن جائے گا اور اسی خانہ جنگی کا اندیشہ ظاہر کیا جانے لگا جو 90 کی دہائی میں افغان مجاہدین کے گروپوں میں دنیا نے دیکھی تھی۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں اہم عہدوں اور ذمے داریوں پر تقرریاں ہونا شروع ہوگئی ہیں جن میں گل آغا وزیر خزانہ، قائم مقام وزیر داخلہ صدر ابراہیم، ہیمت اخون زادہ قائم مقام وزیر تعلیم، ملا عبدالقہار قائم مقام سربراہ مرکزی بینک، نجیب اللہ چیف آف انٹیلی جنس اور ملا شیرین کابل کے گورنر مقرر کردیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سربراہ حکومت کے لیے ناموں پر غور و فکر شروع ہوگیا ہے۔ ہوسکتا ہے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں سربراہ حکومت کا تقرر بھی ہوچکا ہو۔ چناں چہ یہ بہت بڑا چیلنج بھی حل ہوجائے گا۔
اگلا مرحلہ معیشت کی بحالی کا ہے۔ آئیے افغانستان کی معیشت پر ایک نظر ڈال لیں۔ افغانستان کی آبادی چار کروڑ اور معیشت کا حجم یا GDP 19 ارب ڈالر ہے، جب کہ پاکستان کا GDP 280 ارب ڈالر ہے۔ فی کس شرح آمدنی 500 ڈالر اور عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 55 فی صد آبادی انتہائی غریب ہے۔ لیبر فورس 14 لاکھ ہے جس میں سے 23 فی صد بے روزگار ہے۔ لیبر فورس میں سے 44 فی صد زراعت سے وابستہ ہے جب کہ 18 فی صد صنعت اور 37 فی صد کسی نہ کسی سروس سیکٹر سے روزگار حاصل کرتی ہے۔ برآمدات میں پھل، خشک میوہ، افغان قالین، اون، کپاس، چمڑا، قیمتی پتھر اور طبی جڑی بوٹیاں شامل ہیں جب کہ مشینری کھانے کا سامان، ٹیکسٹائل اور پٹرولیم مصنوعات بیرونی دنیا سے درآمد کی جاتی ہیں۔ اہم تجارتی ممالک میں یو اے ای، پاکستان، بھارت اور چین شامل ہیں۔ افغانستان کی سرزمین معدنی دولت سے مالا مال ہے جس میں قدرتی گیس، پٹرولیم، کوئلہ، سنگ مرمر، سونا، تانبا، کرومائیٹ، گندھک، لوہا اور جست اور قیمتی پتھر شامل ہیں، جن کی مالیت ایک کھرب ڈالر ہے۔ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ 2010ء میں کیا گیا جسے افغانستان، پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (APTTA) کہا جاتا ہے، اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک اپنے ائرپورٹ، ریلوے، روڈ اور بندرگاہیں ایک دوسرے کے تجارتی سامان کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات کا حجم کئی سال پہلے 2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا لیکن پھر اس میں کمی آتی گئی۔ افغانستان کے تمام بارڈرز پر پاکستانی ٹرکوں سے رشوت وصول کی جاتی تھی۔ ٹیکس کی شرح بھی زیادہ تھی۔ طالبان کے قبضے کے بعد رشوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے اور ٹیکس کی شرح میں کمی آگئی ہے۔ اسی لیے گزشتہ دو ہفتے سے افغانستان سے تینوں بارڈرز، طور خم، اسپن بولدک اور چمن سے پاکستانی ٹرکوں کی مسلسل آمدورفت جاری ہے۔ سرحدی تاجر بہت پرامید ہیں کہ پاکستان سے افغانستان کو برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح بھارتی اثر رسوخ کم ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کم ہوگی اور کاروباری فضا بہتر ہوگی، جس سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ جیسے جیسے افغانستان میں امن قائم ہوگا پاکستان سے تعمیراتی ساز وسامان کی طلب میں اضافہ ہوگا، اس سے آنے والے دنوں میں پاکستان و افغانستان دونوں ممالک کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ ان شاء اللہ