طالبان نے امریکا پر جنگ مسلط کی تو۔۔۔

846

ایک امریکی نے وائٹ ہائوس فون کیا۔ پوچھا گیا ’’آپ کی کیا خدمت کی جاسکتی ہے؟‘‘ وہ بولا ’’میں افغانستان پر حملہ کرنا چاہتا ہوں‘‘ جواب ملا ’’کیا تم پاگل ہو‘‘ اس شخص نے لمبی سانس لی اور کہا ’’کیا افغانستان پر حملے کی یہ شرط اب تک برقرار ہے‘‘۔ یہ لطیفہ سوفی صد ہماری تخلیق ہے۔ امریکا کے خلاف نفرت اور غصے کا مسلسل اظہار کرتے کرتے اب ہمیں امریکیوں پر ترس آنے لگا ہے۔ امریکی عوام اس عورت کی طرح ہیں جو کبھی یقین نہیں کرتی کہ اس کے محبوب نے کوئی برا کام کیا ہے۔ قتل کے شواہد اور مناظر بھی اس کے سامنے رکھے جائیں تب بھی وہ اسے قسمت کا ہیر پھیر ہی قراردے گی۔ افغانستان سے بھاگنے کے بعد آئندہ وہ امریکا کی شرمناک حرکتوں کو یہ کہہ کر نظرانداز کردیا کرے گی کہ ’’اب کون سا امریکا کو دنیا چلانی ہے؟ چھوڑو‘‘
کسی نے ایک امریکی اہلکار سے پوچھا ’’عراق پر حملہ کیوں کیا‘‘
’’وہاں وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا خدشہ تھا‘‘
’’لیکن عراق میں تو کہیں ایسے ہتھیار نہیں تھے‘‘
’’خدشہ تو تھا نا‘‘ امریکی اہلکار نے جواب دیا
’’اچھا پھر شمالی کوریا پر حملہ کیوں نہیں کیا‘‘
’’پاگل ہوئے ہو‘‘ امریکی اہلکار نے غصے سے جواب دیا ’’ان کے پاس تو سچ مچ کے ایٹمی ہتھیار ہیں‘‘۔
آئندہ افغانستان کے بارے میں وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیار ہوں یا ایٹمی ہتھیار یا اس سے بھی بڑھ کر، امریکا حملہ نہیں کرے گا کیونکہ ’’وہاں طالبان ہیں‘‘۔ عین ممکن ہے آئندہ امریکا کی طرف سے ایسی دھمکیاں بھی آنے لگیںکہ طالبان نے اگر امریکا پر جنگ مسلط کی تو اس کا انجام عبرت ناک ہوگا۔
امریکا ایک ایسی سپر پاور ہے جس کی تاریخ افغانستان میں ایکسپائر ہوگئی ہے لیکن وہ ابھی تک ڈسٹ بن سے دور ہے۔ امریکا کی افغانستان میں شکست پر برطانوی وزیراعظم کی تنقید سنی تو خیال آیا جڑواں بچوں کو ایک دوسرے کو بدصورت نہیں کہنا چاہیے۔ برطانیہ وہ بھائی ہے جو امریکا کو دھکا دینے کے بعد ڈبل بیڈ کے نیچے جھانک کر پوچھتا ہے ’’میرا بھائی کہاں چلا گیا‘‘۔ صدر بائیڈن کو ایک بہت گرم لحاف آفر کیا گیا تو انہوں نے دور پھینک دیا کہ یہ کمبخت طالبان کی طرح چاروں طرف سے Cover کر لیتا ہے۔ امریکا کے طالبان میں بیس برس تک پھنسے رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ افغانستان پر حملہ کرنے والے صدر بش کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا جس کا انتخابی نشان ہاتھی ہے۔ ہاتھی پہاڑوں میں کارکردگی دکھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ بعد میں گدھوں نے بھی امریکا میں صدارت سنبھالی لیکن تمام تر بوجھ ڈھونے کے باوجود افغانستان میں وہ بھی ناکام رہے۔ جس طرح گدھوں کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیکے داروں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں یا چوروں کا اسی طرح طالبان کے قبضے میں آئے ہوئے امریکی اسلحہ کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اسے امریکی فوجی چلارہے ہیں یا طالبان۔ افغانستان پر حملہ امریکا کے لیے ایسا ہی تھا جیسے کوئی ٹوائلٹ پیپر کی جگہ ٹوائلٹ برش استعمال کرنا شروع کردے۔
اگر کوئی بوڑھا جوان اور نوجوان ہونا چاہتا ہے تو اس بات کا خیال رکھے کہ اسے پھر سے الجبرا پڑھنا پڑے گا۔ افغانستان پر حملہ کی خواہش پر طالبان بھی ایک ایسا ہی تصور ہیں۔ سیاست دان ہوں یا ڈائپرز بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ انہیں تبدیل کرتے رہیں افغان مجاہدین یہی سلوک دنیا کی بہتری کے لیے سپرپاورز کے ساتھ کرتے ہیں۔ امریکی عوام اپنی قیادت سے پوچھ رہی ہے کہ افغانستان پر حملہ کرنے سے امریکا کو کیا حاصل ہوا؟ کوئی امریکی عوام کو بتائے کہ درخت پر حملہ کرنے سے کتے کو کیا حاصل ہوتا ہے سوائے درخت کی چھال پر پنجوں کے نشانات کے۔ امریکا کا افغانستان آکر طالبان سے ٹکرانا ایسا ہی تھا جیسے کوئی خود مصیبت کو تلاش کرے۔ جمہوریت کو افغانستان کے مصائب کا حل کہنا غلط تشخیض اور اشرف غنی جیسوں کو اقتدار دینا ایسا علاج تھا جیسے کوئی طاقت کے چکر میں رہی سہی مردانہ طاقت بھی کھودے۔
جب صدر بائیڈن افغانستان سے انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کوئی بیک وقت فاتح اور شکست خوردہ کیسے ہوسکتا ہے؟ امریکا کا دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی دونوں آنکھیں بند کرکے نشانہ لگائے۔ طالبان وہ بھوت ہیں امریکیوں کی نظر میں جن کے کوئی انسانی حقوق نہیں تھے۔ ان کے مقابل امریکیوں کے انسانی حقوق ناقابل تنسیخ ہیں خصوصاً یہ حق کہ وہ طالبان کو دیکھ کر دونوں آنکھیں کھول کر بھاگ سکتے ہیں۔ افغاستان سے واپس آئے ہوئے ایک امریکی فوجی سے پوچھا گیا ’’تم فوج میں کیوں شامل ہوئے‘‘ اس نے گردن اکڑا کر کہا ’’لوگوں کو مارنے کے لیے‘‘ پھر پوچھا گیا ’’افغانستان میں کتنے طالبان مارے‘‘ کہا ’’خدا کے لیے خوفناک باتیں مت کرو‘‘۔ افغانستان کی جنگ میں مارے گئے ایک امریکی نے قبر سے ٹویٹ کی ’’امن میں سکون ہے اور یہاں قبرستان میں بھی کیونکہ یہاں طالبان کا ڈر نہیں ہے‘‘۔
ڈاکو کو بحری ڈاکو اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سمندر میں تیرنا جانتا ہے آئندہ کسی کو امریکی فوجی اس لیے کہا جائے گا کہ وہ ویتنام سے افغانستان تک بھاگنا جانتا ہے۔ افغانستان سے بھاگے ہوئے امریکی اور اتحادی جنرلوں کے کورٹ مارشل میں یہ خوفناک سزا بھی شامل ہے کہ وہ طالبان پر ایک مضمون لکھیں۔ ایک بھگوڑے افغان فوجی کا سامان کھولا گیا تو اس میں سے دو مکڑیاں بھی نکلیں جنہوں نے اسلحہ پر جالے بنے ہوئے تھے۔ اشرف غنی بھاگنے سے پہلے قوم کے سامنے ٹی وی پر جس تقریر کی لیے ریہرسل کررہے تھے اس کا آخری جملہ تھا ’’امن کے حصول کو طالبان ہماری کمزوری نہ سمجھیں اگر امن سیدھی انگلی سے حاصل نہ ہوا تو ہمیں انگلی ٹیڑھی کرنی بھی آتی ہے‘‘ لیکن یہ جملہ کاٹ دیا گیا کیونکہ اس کی انگلی ٹیڑھی ہوتی ہوتی پہلے ہی ٹوٹ چکی تھی۔
پاکستان کابل میں طالبان کی حکومت تسلیم کرے یا نہ کرے اس حوالے سے قبر میں لیٹے جون ایلیا سے مشورہ کیا گیا تو انہوں نے کہا ’’افغانستان پر حملہ کچھ ری پبلیکن لونڈوں کی شرارت تھی لیکن اب ان کے اترے ہوئے چہرے دیکھ کر میرا مشورہ یہی ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیا جائے‘‘ بل گیٹس سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو جواب آیا ’’طلاق یا بریک اپ سے گزرنا اندرونی طاقت کو کمزور کردیتا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ مالی حالت کو بھی کمزور کردیتا ہے۔ ملینڈا گیٹس کی طرح طالبان کی کمزوریوں نے طاقتوروں کے تمام امکان ختم کردیے ہیں سوائے اس کے کہ انہیں تسلیم کرلیا جائے‘‘۔ ایک سیلز مین سے یہی سوال پو چھا گیا تو اس نے جواب دیا بحیثیت سپرپاور اب امریکا کی اوقات بس اتنی رہ گئی جتنی لیز کے غبارے میں تھوڑے سے چپس۔ لہٰذا امریکا کی ناراضی کی پروا کیے بغیر ہمیں طالبان کی حکومت تسلیم کر لینی چا ہیے۔