نقطہ نظر

299

 

ایک قوم دو بیٹیاں
مریم مختار جن کا نام پاکستان کے لوگوں نے سنا ہی ہو گا۔ اگر نہیں سنا تو میں آپ کو ان کا تعارف کرا دیتی ہوں۔ وہ ایک ایسی خاتون تھیں جنہوں نے انجینئر کی تعلیم حاصل کی اور پیشے کے طور پر پائلٹ آفیسر کی جاب اختیار کی آپ لوگ بھی سوچ رہے ہوں گے یہ کون سی بڑی بات ہے ایسا بہت سی خواتین کرتی ہیں لیکن ان کی ایک خاص بات جو ان کو سب سے منفرد کرتی وہ یہ کے دوران پرواز ان کی فلائٹ میں کو فنی خرابی ہوگئی ان کو ہدایت ملی کہ فلائٹ کا رخ زمین کی طرف کر دیں اور اپنی جان بچانے کی کوشش کریں۔ لیکن وہاں آبادی ہونے کی وجہ سے انہوں نے گوراہ نہ کیا کہ وہ آتنی آبادی کو خطرے میں ڈالیں۔ وہ آخری پوائنٹ تک اپنی پرواز لے گئیں جہاں ایک بڑی آبادی کو خطرہ سے بچاتے ہوئے جہاز کریش کر دیا اور جام شہادت نوش کیا۔ ایسا کردار کوئی عام فرد ادا نہیں کر سکتا یقینا اس کے پیچھے شاندار تربیت کا ہاتھ ہوتا ہے بلاشبہ وہ بہترین مومنہ خاتون تھیں ہر وقت باحجاب رہتی تھیں ان کے حلقہ احباب میں بہت سے مرد کام کرتے تھے انہوں حجاب کو اپنائے رکھا اور ایسا پیشہ اختیار کیا جو ایک خاتون کے لیے مشکل ہے لیکن مریم مختار اپنے کردار میں بلند تھیں۔
مردوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہیں کسی مرد سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ایک بڑی آبادی کی جان بچاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ لیکن آج قومی دن کے موقع پر مریم مختار کیوں یاد آئیں دراصل مینار پاکستان کے پاس ایک خاتون کی تذلیل اور اس کے پس منظر میں واقعات سن کر انتہائی افسوس ہوا اس ٹک ٹاکر کی اصل کہانی سن کر ماضی کی گرد سے مریم مختار کا کردار نمایاں ہوا اس لیے ان کا ذکر کرنا ضروری سمجھا، قومی دن کے موقع جبکہ افغانستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کی خوش خبری بھی عوام کو ملنے والی تھی اس موقع پر عائشہ اکرم کا ڈراما پیش آیا جو اب تک سب معلوم ہوچکا ہوگا اس نے چھ مرد دوستوں کے ساتھ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے یا پھر اپنا ٹک ٹاک تیار کرنے کے لیے ایک پلاننگ اور ڈراما تیار کیا جو کہ ایک مسلم معاشرے پر دھبا ہے۔ اور پاکستانی مسلم معاشرے میں خاتون کا کردار پیش کیا جو انہیں سستی شہرت تو دے گیا لیکن مسلم پاکستانی عورت کے کردار کو گہنا گیا اور نا صرف عورت کے کردار کو مردوں کو بھی اوباش اور آورہ ظاہر کردیا اس کے بر خلاف مریم مختار نے بھی شہرت حاصل کی جس کے نتیجے میں حکومت نے انہیں تمغہ بسالت سے نوازا۔ اگرچہ دونوں خواتین تھیں۔ اپنے عمل سے دونوں نے شہرت حاصل کی وہ بھی مردوں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ انہوں نے اپنے تربیتی کردار سے باحجاب ہو کر زندگی گزاری آپ لوگ بخوبی دونوں کے کردار کا موازنہ کر سکتے ہیں۔
مریم صاحبہ کے کردار سے ایک پاکستانی مسلم مرد اور عورت کے سر بلند ہو گئے اور وطن کی عزت پر اپنی زندگی قربان کردی۔ ان شاء اللہ پاکستان کی تاریخ میں انہیں یاد رکھا جائے گا۔ جبکہ دوسری خاتون نے سستی شہرت تو حاصل کرلی لیکن اس کے کردار سے پورے مسلم معاشرے کے مرد وزن دونوں کے سر شرم سے جھک گئے۔اور وطن کی عزت کو اچھالا۔
فوزیہ سلطانہ کراچی
حق دو کراچی کو
کورونا سے ڈرنا نہیں بلکہ اس سے لڑنا ہے۔ محترم وزیر اعظم کے الفاظ ہمارے ذہنوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ ہم ہر طرح سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں رشتے داروں میں جانا تو دور کی بات ضروری کاموں اور سودا لینے بھی جاتے ہیں تو ماسک اور حفاظتی اقدامات کر کے جاتے ہیں۔ گھر آ کر بھی انہی حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے منہ سے لے کر پاؤں تک پورے کا پورا اپنا وجود دھو ڈالتے ہیں۔ لیکن گزشتہ دنوں ہم ایکسپو سینٹر کی طرف گئے تو بے تحاشا رش نظر آیا۔ بہت حیرانی ہوئی کہ یہ سب کیا ہے؟؟ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ کورونا سے ڈرنا نہیں بلکہ لڑنا ہے۔ یہ منظر اس کے حسب حال ہی نظر آیا وہ بیچارے غریب لوگ بغیر ڈرے ہوئے لائنوں میں نظر آئے لائن ایک بھی نہیں ہزار لوگ ایک ساتھ یا اللہ خیر… غریب عوام تو مجبور ہیں اگر ویکسین نہیں لگائیں گے تو ان کی تنخواہ روک دیے جانے کا خوف ہر چیز سے بے خوف ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔ لیکن بھلا ہو صاحب اقتدار لوگوں کا۔ جنہوں نے یہ اعلان تو کر دیا کہ اگر ویکسین نہ لگائی گئی تو ان کی تنخواہ روک دی جائے گی۔ وہ سفر کرنے سے قاصر ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی موبائل سمیں بھی بند کر دی جائیں گی۔ لیکن ویکسین لگانے کے مراکز نہ بڑھائے گئے۔ اب اگر کورونا کی وبا سے گلی اور محلوں میں بے تحاشا جانی نقصان ہو رہا ہے اس میں حکومت برابر کی شریک ہے۔ کیوں نہ محلے میں ایسے مراکز بنا دیے گئے کہ لوگ اپنے قریبی مراکز سے ویکسین لگوا لیتے؟ جیسا کہ الیکشن کے دنوں میں گلی گلی پولنگ بوتھ بنائے جاتے ہیں۔ شامیانے لگا کر بھی یہ کام ہوسکتا ہے یا پھر مرد و خواتین کی وہ ٹولیاں پولیس کی نگرانی میں گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلاتے ہیں ویکسین بھی لگانے کا انتظام کر سکتے ہیں۔ عوام کو بھی آسانی فراہم کی جائے۔ کیونکہ کراچی کے عوام سب شہروں سے بڑھ کر ٹیکس دیتے ہیں لیکن وہ ٹیکس خود کراچی کے عوام پر خرچ نہیں کیا جاتا ہے۔۔۔ برائے مہربانی کراچی کا پیسہ کراچی کے لوگوں پر بھی خرچ کیے جائے تو اتنا بڑا شہر بیماری اور وبا اسے باآسانی نکل سکتا ہے کراچی کو اس کا حق دیں۔ کراچی کو معذور ہونے اور تباہ ہونے سے بچانے کی پوری کوشش کریں۔
غوثیہ طارق، نیو کراچی