کورونا اور سندھ حکومت کے تضادات

360

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ صوبے میں کورونا کی صورتحال کے باعث یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولز 10 دن کے بعد 30اگست سے کھلیں گے۔ اس کے رد عمل میں آل سندھ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن نے23 اگست سے بچوں کو سڑکوں پر پڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشنز کا کہنا ہے کہ جو پرائیویٹ اسکولز ویکسی نیشن کا عمل مکمل کر چکے ہیں انہیں کیوں بند رکھا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے اس فیصلے پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بھی سخت رد عمل کا اظہا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کرونا کی آڑ میں تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش قوم کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ایس او پیز پر تعلیمی اداروں نے سب سے بہتر طریقے سے عمل کیا۔ مگر سندھ حکومت پھر بھی انہیں بندکردیتی ہے۔ یہ تعلیم دشمنی ہے۔ پوری دنیا نے کورونا کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنے اپنے طریقے سے اقدامات بھی اٹھائے ہیں اور پابندیاں بھی لگائی ہیں لیکن وہاں صرف پابندیاں اعلانات کی حدتک نہیں رہیں، بلکہ اس پر ریاست نے اصل روح کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بنایا ہے، اس دوران شہریوں کو جو بندش کے نتیجے میں معاشی نقصان پہنچا ہے تو اس کو بھی کم کرنے کی کوشش کی ہے اور ریاست ان کے دکھ سکھ میں ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔ قانون کی بالادستی پر یہاں صرف ایک ملک سنگاپور کی مثال ہی دیکھ لیں، سنگاپور کو قوانین نافذ کرنے سے متعلق کافی مقبول سمجھا جاتا ہے اور وبا کے دوران وہاں ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے پر کئی افراد کو جیل بھی بھیجا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک برطانوی شہری کو ماسک نہ پہننے پر 6 ہفتے کی سزا کاٹنا پڑی جس نے ٹرین میں سفر کے دوران ماسک نہیں پہنا تھا، تو وہ ریاستیں جہاں ہر فیصلے کے پیچھے لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کی جان و مال کو محفوظ رکھنے کا جذبہ اور منصوبہ ہوتو پھر نیک نیتی سے اٹھائے گئے قدم پر وہاں کے عام لوگوں کی تائید بھی شامل ہوتی ہے پھر فیصلوں پر سوال بھی نہیں اٹھتے اور عوام ہر بات کو سنجیدہ لیتے ہیں۔ لیکن وطن عزیز اور بالخصوص سندھ میں اس کو غیرسنجیدہ اور غیر حقیقت پسندانہ عمل سے مذاق بنادیا گیا ہے۔ ایک فیصلہ تو یہ کہ جس میں وفاق بھی شامل ہے کہ جمعہ اور اتوار بازاروں اور کاروبا ر کا بند ہونا اور 8بجے تک بند ہونے کا فیصلہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ جب آپ جلدی بند کرتے ہیں تو مخصوص اوقات میں خریداروں کا رش بڑھ جاتا ہے اسی طرح بندش کے بعد جب اگلے روز بازار اور مارکٹیں کھلتی ہیں تو عام دنوں سے دس گنا زیادہ رش سڑکوں اور بازاروں میں نظر آتا ہے تو فیصلے اور اقدمات تو وہ اٹھانے چاہئیں جن سے رش اور بھیڑ کم ہو لیکن یہاں تو ریاست کی سطح پر کورونا پھیلانے کے منصوبے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح دوسری طرف حکومتی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ کراچی میں محکمہ صحت کے عملے نے مردہ شخص کو بھی ویکسی نیٹڈ دکھا دیا، عبدالندیم کا ڈھائی سال پہلے انتقال ہو گیا تھا، لیکن نادرا ریکارڈ کے مطابق انہیں 16 اگست 2021 میں ویکسین لگ چکی ہے۔ اس سے قبل بھی کراچی ایکسپو سینٹر میں رقم کے عوض جعلی ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ بنانے والے افراد کو پکڑا گیا تھا اور اب بھی شہر میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جنہوں نے ویکسین لگائے بغیر ہی نادرا سے ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ سندھ اور بالخصوص کراچی میں کورونا کی چوتھی ڈیلٹا اگر بڑے پیمانے پر پھیلی ہے تو اس کی ذمے دار سندھ حکومت ہے کیونکہ اس نے بندش کے اعلانات کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا، پورے سندھ میں عوام ہجوم کی صورت میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، اس وقت عملی صورت حال یہ ہے کہ حکومت سندھ کے کسی بھی دفتر میں ایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ کورونا کی پہلی لہر میں سندھ حکومت کے لاک ڈائون کا خیر مقدم کیا گیا تھا، لیکن اب ایسا لگتا سندھ حکومت کے فیصلے وفاق سے لڑائی کے پس منظر میں ہو رہے ہیں یا کہیں اور ہو رہے ہیں۔ بداعتمادی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ہی گزشتہ جولائی والے لاک ڈائون کے فیصلے کو عوام، سیاسی جماعتوں اور تاجروں نے اسی طرح مسترد کردیا تھا جس طرح آل سندھ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن سمیت سیاسی جماعتوں نے بھی اسکول نہ کھولنے کے فیصلوں کو مسترد کیا ہے، اْس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حکومت کے قول اور فعل میں تضاد ہے اور لوگ حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ آپ کے سارے اقدامات اگر کورونا کو روکنے کے لیے ہیں تو پھر صوبے میں جگہ جگہ بازار اور سڑک پر لوگ ایس اوپیز پر عمل کرتے نظرآتے لیکن ہمیں کراچی سمیت پورے سندھ میں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا، یہاں تک کے عید الاضحیٰ میں ہم نے لوگوں کو ایس او پیز پر عمل کرتے دیکھا اور نہ محرم میں جلسے، جلوس اور تعزیے کے ہجوم میں کوئی پابندی کرتا نظر آیا، اور نہ ہی کوئی ایسا حکومتی نظام ایس او پیز پرعمل درآمد کرواتا نظر آیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر سندھ حکومت نے ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے اور علاج معالجہ کی صورت حال پر توجہ دی ہوتی اور تو شاید آج یہ صورت حال پیدا ہی نہیں ہوتی یا کم ازکم شرح بڑھنے کا یہ تناسب نہیں ہوتا۔ ایک حقیقت ہے یہ بھی ہے کہ کورونا کو صرف اسکول بند کرنے سے نہیں روکا جاسکتا، اور پھر جن ایس او پیز کے اعلان کے ساتھ آپ 30اگست کے بعد اسکول کھول رہے ہیں تو پھر وہی کام ابھی کیوں نہیں کررہے؟ حکومتوں کے اس طرح کے تضادات اور دلائل سے مْبرا کمزور فیصلے جب سامنے آتے ہیں تو ایسے لوگوں کو پروپیگنڈا اور ابہام پیدا کرنے کے مزید مواقع ملتے ہیں جو کورونا کو وبا ماننے سے ہی انکاری ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ اسے سنجیدہ نہیں لیتے۔ ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت واقعی کو رونا کو پھیلنے سے روکنا چاہتی ہے تو ایسے اقدام سے گریز کرے جو لوگوں کی تکلیف بڑھائے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زندگی سب سے اہم ہے اور معیشت دوسرے نمبر پر ہے لیکن حکومت سندھ کے غلط فیصلے سے اس وبا کو ختم نہیں کیا جاسکتا اس کے لیے مستقل نوعیت کے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔