مراد رسول۔۔۔۔۔سیدنا عمرؓ

297

خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کی اسلام کے لیے روشن خدمات، جرأت وبہادری، عدل وانصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار وکارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔ آپ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات وترقی اور عروج کا زمانہ تھا۔ مسلمان اس قدر خوشحال ہوگئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے ’’مستحق زکوٰۃ‘‘ کو تلاش کرتے، لیکن ان کو زکوٰۃ لینے والا مشکل سے ملتا تھا۔
سیدنا عمر فاروقؓ کو نبی اکرمؐ نے بارگاہ خداوندی میں جھولی پھیلا کر مانگا تھا، اسی وجہ سے آپ کو ’’مرادِ مصطفیٰ‘‘ کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ آپؓ خوش نصیب عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں، جن کو دنیا میں ہی نبی اکرمؐ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپؓ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں اور آپ کی شان میں چالیس کے قریب احادیث نبوی موجود ہیں۔ آپ کے بارے میں نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔ (ترمذی)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ عمر فاروقؓ کا مسلمان ہوجانا فتح اسلام تھا اور ان کی ہجرت ’’نصرت الٰہی‘‘ تھی اور ان کی خلافت اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی۔
سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اے (عمر) ابن خطاب! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب تم کو شیطان کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ (بخاری ومسلم) ایک موقع پر نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو قائم کر دیا ہے۔ (ترمذی)
سیدنا عمر فاروقؓ نے تمام غزوات وجنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت وبہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ ’’بدر کے قیدیوں‘‘ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروقؓ کا مشورہ اس قدر پسند آیا کہ آپ کی رائے اور مشورہ کی تائید کی میں ’’آیت قرآنی‘‘ نازل ہوگئی۔
آپ کا نام عمر ابن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب نویں پشت میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے ملتا ہے۔ مشہور روایت کے مطابق آپ نبوت کے چھٹے سال 33 سال کی عمر میں اسلام کی دولت سے مال مال ہوئے جبکہ آپ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہو چکی تھیں۔
سیدنا عمر فاروقؓ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی تھا، رخسار پر گوشت کم، قد دارز تھا۔ جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے اونچے نظر آتے۔ ایسا معلوم ہوتا گویا آپ سواری پر سوار ہیں۔ آپ بڑے بہادر اور طاقتور تھے، اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی، اسلام لانے کے بعد ویسی شدت اسلام میں بھی ہوئی۔ آپ خاندان قریش کے باوجاہت لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور و معروف ہے اور آپ کا اسلام لانا نبی اکرمؐ کی دعاؤں کا ثمر اور معجزہ تھا۔
آپ کے اسلام لانے سے صحابہ کرامؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کفار پر رُعب پڑگیا۔ آپ کے اسلام لانے سے نبی اکرمؐ نے بیت اللہ میں ’’علانیہ‘‘ نماز ادا کی۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت سے قبل بیت اللہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمعے کو مخاطب کر کے کہا کہ میں ہجرت کرکے مدینہ جا رہا ہوں، یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی۔ جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کروانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے، لیکن کفار میں سے کسی کو بھی آپ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آپؓ کے اسلام لانے سے دین اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔
آپ نے خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ان کے ساتھ مل کر اسلام کی اشاعت و غلبے کے لیے بہت کام کیا۔ خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کے لیے عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے انتخاب کے لیے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ’’خفیہ رائے شماری‘‘ کا طریقہ اختیار کیا۔
صحابہ کرامؓ کی ’’اعلیٰ مشاورتی کونسل‘‘ اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کی ’’جانشینی‘‘ کا اعلان کیا۔ بعض مؤرخین کے مطابق رائے شماری کے دوران چند صحابہ کرام نے کہا کہ سیدنا عمر کا مزاج سخت ہے اگر وہ سختی پر قابو نہ پا سکے تو بڑا سانحہ ہوگا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ عمر کی سختی میری نرمی کی وجہ سے ہے۔ جب تنہا ان پر ذمے داری عائد ہونگی تو یقیناً جلال وجمال کا امتزاج قائم ہو جائے گا۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور اس خطبے میں فرمایا کہ اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی جب تم لوگ نبی اکرمؐ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی نرمیوں اور مہربانیوں سے فیض یاب تھے۔ میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ اب میں تم پر سختی نہ کروں گا۔ اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔ اسی خطبے میں آپ نے سوال کیا کہ اے لوگو! اگر میں ’’سْنتِ نبوی‘‘ اور ’’سیرتِ صدیقی‘‘ کے خلاف حکم دوں تو تم کیا کروگے؟ لوگ کچھ نہ بولے اور خاموش رہے، دوبارہ آپ نے یہی سوال دہرایا تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اس تلوار سے سر کاٹ دیں گے۔ اس پر آپ بہت خوش ہوئے۔
’’خلیفۃ المسلمین‘‘ بننے کے بعد آپ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے جس پر سیدنا ابوبکر صدیقؓپاؤں رکھتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں تو فرمایا: میرے لیے یہ کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبر کے پاؤں ہوں۔
آپ کے زہد وتقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا جو آپ کی ضرورت کے لیے بہت کم تھا اور کئی مرتبہ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے لیتے وہ بھی کسی موٹے اور کُھردرے کپڑے کے ہوتے، جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔ سیدنا زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کیے۔ آپ میں خشیت اور خوفِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں ’’آیت قیامت و آخرت‘‘ کے ذکر پر بے ہوش ہو جاتے۔ زکوٰۃ و صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے۔ آخری عمر میں سوائے ’’ایام ممنوعہ‘‘ کے ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ اپنی رعایا کی خبرگیری کے لیے راتوں کو اْٹھ اْٹھ کر گشت کیا کرتے۔ جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال کرتے بازار سے سامان وغیرہ خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
سیدنا عمر فاروقؓ جب کسی صوبے یا علاقے میں کسی کو گورنر وغیرہ مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور اس کو مقررکرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرواتے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سْنتے۔ آپ مختلف علاقوں کا خود دورہ کر کے لوگوں کے مسائل وشکایات کو دور کرتے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں ’’بیت المقدس‘‘ کو فتح کرنے اور ’’قیصر وکسریٰ‘‘ کو پیوند خاک کر کے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرایا۔
اپنے دور خلافت میں آپ نے بیت المال یعنی خزانے کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔ ’’جیل خانہ‘‘ اور پولیس کا محکمہ بھی آپ نے ہی قائم کیا۔ ’’تاریخ سن‘‘ قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔ امیر المؤمنین کا لقب اختیار کیا، فوجی دفتر ترتیب دیا۔ ’’دفتر مال‘‘ قائم کیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے، ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔ اصلاح کے لیے ’’دُرّے‘‘ کا استعمال کیا، مسافروں کے آرام کے لیے مکانات تعمیر کروائے، گم شدہ بچوں کی پرورش کے لیے ’’روزینے‘‘ مقرر کیے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔ مکاتب و مدارس قائم کیے۔ یکم محرم الحرام کو 22 لاکھ مربع میل زمین پر نظام خلافت کو جاری کر کے آپ نے 63 برس کی عمر میں شہادت پائی۔