حکومت طالبان: اقوام متحدہ کے ایک صحافی کی گواہی

773

عظیم ایم میاں بہت سینئر اور معروف صحافی ہیں۔ اقوام متحدہ نیویارک سے رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک زمانہ گزر گیا۔ وہ شروع سے جنگ گروپ (اخبار جنگ، دی نیوز، جیو ٹی وی وغیرہ) کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ اقوام متحدہ سے وابستہ مختلف ممالک کے صحافیوں کے ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اسی ایسوسی ایشن کا ایک وفد طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کا مطالعاتی دورہ کرنے گیا تھا۔ عظیم ایم میاں اس وفد کے ساتھ تھے۔ اس دورے کے بہت بعد، میں نے ایک بار عظیم ایم میاں سے سوال کیا کہ آپ نے طالبانی حکومت میں افغانستان کا دورہ کیا ہے، آپ مجھے وہ بتائیں جوآپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، نہ کہ وہ کہ دنیا کیا کہتی ہے اور خود آپ نے کیا لکھا کیا نہ لکھا۔ ہمیںآپ اپنا مشاہدہ بتائیں۔ ہم نے ساتھ یہ بھی سوال کر لیا کہ آپ مسلم ہیں اور آپ کی ڈاڑھی نہیں ہے تو آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ کہنے لگے‘‘ نہیں، ایسا نہیں ہوا۔ میں تو پورا افغانستان گھوم آیا، کسی نے نہ روکا، نہ ٹوکا، نہ ڈاڑھی نہ ہونے کی وجہ سے گھورا‘‘۔
عظیم میاں نے بتایا کہ ’’ہم حکومت طالبان کے وزیر اطلاعات سے ملنے گئے۔ ان سے ملاقات کے لیے ایک لمبی لائن تھی۔ میں بھی لائن میں لگ گیا۔ میرے ٹھیک آگے ایک چودہ سال کا بچہ تھا۔ جب اس کی باری آئی تو وہ وزیر سے کہنے لگا کہ اس کی ماں بیوہ ہے اور اس کے گھر میں مستقل خوراک کی ضرورت ہے۔ وزیر نے جواب دیا کہ اس ملک میں ایک بڑی تعداد بیوہ عورتوں کی ہے۔ اور حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ لڑکے نے جواب دیا کہ اسے کچھ نہیں معلوم۔ ’’مجھے بس یہ معلوم ہے کہ میری ماں بیوہ ہے اور وہ ضرورت مند ہے۔ اور اس کے لیے میں مدد لینے آیا ہوں‘‘۔ اس لڑکے نے جس طرح مضبوطی سے اور خوبصورتی سے متواتر اپنی عرضداشت رکھی، وزیر نے اسے منظور کر لیا‘‘۔ عظیم میاں جب وزیر اطلاعات سے مل کر باہر آئے تو وزیر بھی ان کے ساتھ آئے۔ باہر ایک ٹھیلے پر امرود فروخت ہو رہا تھا۔ وزیر نے اس سے امرود تولنے کے لیے کہا۔ جب امرود والے نے رقم بتائی تو وزیر نے اپنا جیب ٹٹولا، ان کے پاس وہ رقم نہیں تھی۔ انہوں نے امرود کے وزن کو آدھا کر ا دیا۔ اور خرید کر اسی میں انہیں بھی کھلایا اور خود بھی کھایا۔
دوسرا واقعہ انہوں نے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کی عدالت کا بتایا۔ وہاں ایک قتل کا مقدمہ تھا۔ اور قصاص کا (قتل کے بدلے میں قتل) فیصلہ ہو چکا تھا۔ شرعی طور پر اب دیت (خون بہا) لے کر مقتول کے ورثا قاتل کی جان بچا سکتے تھے۔ مقتول کے ورثا ایک ٹرک لے کر قاتل کی جان بخشی کے لیے تیار تھے۔ ٹرک کا افغانستان کی معیشت میں اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ ایک قیمتی چیز ہے۔ اور وہاں کے لحاظ سے یہ ایک اچھی بڑی رقم تھی۔ قاتل کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ وہ اسے ٹرک لے کر دے سکے۔ اسے اس کے لیے مدد کی ضرورت تھی۔ قاضی القضاۃ نے حکومت کی طرف سے مقتول کے ورثا کو ٹرک دلانے کا فیصلہ کر دیا۔ اور قاتل کی جان بخشی ہو گئی۔ عظیم میاں نے یہ بتایا کہ وہ چیف جسٹس کے ساتھ ہی ساتھ مسجد میں نماز کے لیے گئے۔ وہاں جب چیف جسٹس نے اپنا جوتا اتارا تو ان کے موزے ایڑیوں سے پھٹے ہوئے تھے۔ ٹرک دلانے کا فیصلہ لکھنے والے جج کے پاس ایک صحیح و سالم موزہ بھی نہیں تھا۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے ساتھ ساتھ طالبان کی حکومت انسانی جانوں کی کتنی قدردان تھی۔
موجودہ دور میں سنی سنائی خبر اور مشاہداتی خبر میں کتنا بڑا فرق واقع ہو گیا ہے، آپ کو مندرجہ بالا چند نمونوں سے معلوم ہو گیا ہوگا۔ پاکستان کا ابلاغیہ اور صحافی طبقہ انتہائی نا واقف، بے خبر، بے سمت، بد عقل اور بدقسمت ہے۔ اس کے پڑوس میں اتنے بڑے بڑے تاریخی واقعات رونما ہوئے، دنیا کی دو سپر پاورز کو حال ہی میں یکے بعد دیگرے شکست ہوئی، لیکن وہ انجان سا بنا رہا۔ اس کے پاس براہ راست خبر کے ذرائع بھی نہیں تھے۔ وہ ہمیشہ مغرب کا اْگلا ہوا جھوٹ ہی نِگل کر اْگلتا رہا۔ اگر پاکستان آج ایک آزاد ملک ہوتا اور اس کا ابلاغیہ بھی آزاد ہوتا، اور اس کے صحافی بھی ذہنی غلامی سے آزاد ہوتے تو اب تک جہاد افغانستان پر سیکڑوں فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہوتے۔ اور اخبارات مجاہد ہیروز کے انٹرویوز سے بھرے ہوتے۔ وہاں کے مجاہدین ساری دنیا کے مظلوموں، کچلے ہوئے انسانوں، بے سہارا، بے وسائل لوگوں اور مغلوب قوموں لیے رول ماڈل بن چکے ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے اپنے قلیل دور حکومت (1996-2001) میں قرون اولیٰ کی مثال قائم کر دی تھی۔ ان کا رول ماڈل خلافت راشدہ تھا۔ اس وقت طالبان کی ایک ہی کمزوری تھی کہ اس کی حکومت اسلام آباد (اور راولپنڈی)، ریاض اور واشنگٹن کی مدد سے بنی تھی۔ اور یہی کمزوری بڑی مصیبت لے کر آئی۔ مدد سے حاصل ہونے والی فتح میں مددگار قوتیں بڑے مسائل لے کر آتی ہیں۔ اور طالبان کے ساتھ یہی ہوا۔
طالبان کی حکومت پہلے افغانستان کے مرکز کابل میں قائم ہو ئی اس کے بعد بتدریج پہلے بڑے شہروں، چھوٹے شہروں اور گائوں، دیہاتوں میں قائم ہوئی تھی۔ اس بار جب وہ دوبارہ حکومت میں آرہے ہیں تو سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ بغیر کسی کی مدد کے (ساری دنیا ان کی دشمن تھی) آرہے ہیں۔ اس فتح میں اللہ کی مدد اور ان کے زور بازو کی طاقت عیاں ہے۔ اس بار ترتیب بھی اُلٹ گئی ہے۔ پہلے گائوں، دیہات اور چھوٹے شہر اس کے بعد بڑے بڑے شہر ان کے قبضے میں آئے۔ جب ان کی حکومت کابل میں قائم ہو جائے گی اس وقت ان کی جڑیں پورے افغانستان میں گہرائی سے اتری ہوں گی۔ وہ ناقابل شکست بن چکے ہوں گے۔ وہ بڑھتے چلے جائیں گے۔ ان کو روکنا اب ممکن نہیں ہے۔ اب طالبان کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، ڈرنا اب ان کے دشمنوں کا مقدر ہے۔