سماجی تربیت کے فقدان کے باعث پاکستانی معاشرے پر مغربی یلغار مسلط ہے

576

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کی پہچان اور سماجی ترقی کی میراث ہوتی ہے، پاکستانی معاشرے مغربی تہذیب کی یلغار نے نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے، جس میںمذہب بیزاری، سماجی علیحدگی، جوائنٹ فیملی نظام کی جڑیں کمزور کرنے جیسے معاملات نے فروغ پانا شروع کردیا، معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں اضافہ ہوا،جب سے ہم نے اپنی تہذیبی ورثے اور قومی تشخص کو بھلانا شروع کیا، مغربی ثقافت نے اپنے پنجے ہمارے اذہان پر گاڑنے کا آغاز کردیا، گھروں اور پھر درس گاہوں میں انگریزی زبان کے احساس برتری کے ذریعے ہم اپنی زبان کی چاسنی اور رچائو سے محروم ہوتے چلے گئے۔ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی،وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ تجارت کے استاد سید اقبال حسین نقوی اورصفہ یونیورسٹی کے شعبہ مینجمنٹ سائنسز کی لیکچرارسعدیہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ پاکستانی معاشرے میں بڑھتے ہوئے مغربی رجحانات کے اسباب کیا ہیں؟۔جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کی پہچان اور سماجی ترقی کی میراث ہوتی ہے ایک تہذیب کا دوسری تہذیب پر اثرات مرتب ہونا کوئی انہونی بات نہیں تاہم بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے مغربی تہذیب کی یلغار نے بالعموم اور نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔ مغرب کے پیش کردہ مذہب بیزاری، سماجی علیحدگی جیسے رجحانات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بھی جوائنٹ فیملی کے نظام کے بجائے Never family system نے فروغ پانا شروع کردیا۔مشترکہ فیملی سسٹم کے بجائے رشتوں سے دوری اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا جیسے رجحانات نے کی وجہ سے معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں اضافہ ہوا ،اس کے علاوہ وہ پرخلوص رشتے (مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی، وغیرہ) جو فرد کی تربیت میں ہم کردار ادا کرتے تھے ان میں بتدریج کمی آنا شروع ہوگئی۔باپ اور بیٹے کے درمیان حد سے زیادہ لحاظ و مروت کی وجہ سے بھی لڑکوں کی مناسب سماجی تربیت نہ ہو سکی۔موجودہ وباکے تناظر میں مغربی معاشرے کے اثرات کی سب سے بڑی وجہ سماجی رابطے کے انتہائی بڑھتے ہوئے اور بے لگام اثرات نے نئی نسل کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے کورونا کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈائون نے تو رہی سہی سماجی و تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کر دیا۔لاک ڈائون کے دوران مسلسل سوشل میڈیاکے استعمال کی وجہ سے نئی نسل میں مغرب پسندی، مذہب بیزاری، خود سری، سماجی علیحدگی جیسے رجحانات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان نسل بہت سماجی و نفسیاتی تنائو کا شکار نظرآتے ہیں جس کے اثرات ہم بہت جلد مستقبل میں دیکھے گے۔اس ضمن میں ماہر سماجیات اور نفسیات کو ہنگامی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ مستقبل کے اثاثوں کو مغرب کے منفی رجحانات سے بچایا جا سکے۔وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ تجارت کے استاد سید اقبال حسین نقوی کا کہنا تھا کہ معاشرہ بنیادی طور پر افراد کے اجتماعی رویوں سے تشکیل پاتا ہے اور جب بات پاکستانی معاشرے کی ہو تو یقینا اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس مملکت خداداد کے حوالے سے ’’مسلم معاشرے‘‘ کا خاکہ ذہن میں اْبھرتا ہے تاہم یہ نقش اس وقت معدوم ہوتا نظر آتا ہے جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر دوڑائیں، ہر مملکت مغربی رجحانات کی اندھی نقالی نظر آتی ہے۔ بلاشبہ یہ وہ زہر ہے جس نے مضر اثرات کا اندازہ اقبال جیسے دانشور کو ایک صدی پہلے ہوگیا تھا۔ جبھی انہوں نے مغربی تہذیب کے حوالے سے یہ کہا تھا کہ نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں ،چہرہ روشن ہو تو کیا حاحت گل گونہ فروش۔اس ضمن میں جب غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جب سے ہم نے اپنی تہذیبی ورثے اور قومی تشخص کو بھلانا شروع کیا، مغربی ثقافت نے اپنے پنجے ہمارے اذہان پر گاڑنے کا آغاز کردیا۔ گھروں اور پھر درس گاہوں میں انگریزی زبان کے احساس برتری کے ذریعے ہم اپنی زبان کی چاسنی اور رچائو سے محروم ہوتے چلے گئے اور اس حقیقت کو فراموش کردیا ۔پھر الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے مغربی ثقافت کے بھرپور مظاہروں کے آگے پوری قوم نہ صرف یرغمال بن گئی ہے بلکہ بے بسی کی تصویر نظر آتی ہے۔ بچوں کے موبائل گیمز اور ٹی وی کارٹونز سے لے کر کمرشلز، ڈرامے، موویز اور سوشل ایپس سب کے سب گویا ہمیں مغربیت کی طرف مائل کرنے میں مگن ہیں۔ گھروں میں والدین نے تربیت اولاد کی ذمے داری آئی فونز کے سپرد کردی ہے تو نوجوان نسل اپنا احساس تنہائی دور کرنے کے لیے سماجی رابطے تیز کرنے میں مصروف۔مغربی تہذیب غیر محسوس طریقے سے ہماری نشست و برخاست، لباس و خوراک، گفتار و کردار اور افکار پر رنگ جماتی جارہی ہے، اور اس کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے من حیث القوم ہم سب ذمے دار ہیں کہ ہم اس پیغام کو فراموش کرچکے ہیں کہ اپنے مرکز سے اگر دور نکل جائو گے ،خواب ہوجائوگے، افسانوں میں ڈھل جائو گے ، اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو،سنگِ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جائو گے،تم ہو ایک زندہ جاوید روایت کے چراغ،تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جائو گے۔صفہ یونیورسٹی کے شعبہ مینجمنٹ سائنسز کی لیکچرارمس سعدیہ کا کہنا تھا کہ جہاں تک میرا خیال ہے پاکستان کے اپنے نظریات ہیں ہماری کچھ روایتی اور کچھ مذہبی حدود ہیںاور ہمیں انہی کے اندر رہتے ہوئے دوسروں کے لیے اور اپنی نئی نسل کے لیے مثال قائم کرنی ہے۔بنیادی طور پر مغربی کلچر اور روایات کی تقلید کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں مختلف ممالک کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔ایک ایسا شخص جو متنوع معلومات رکھتا ہو وہ انفرادیت کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے اور یہ بھی کہ کسی کی پہچان اس کے لیے کتنی ضروری اور مسرور کن ہے۔بقول رالف ویلڈوایمرسن کا کہنا تھا کہ ” جب دنیا آ پ کو ہر لمحہ بدلنا چاہے اور آپ اپنی شناخت پر قائم رہیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔”