ریڈیو پاکستان سے وابستہ کچھ یادیں

401

۔1970ء کی دہائی میں ہم نے راولپنڈی کے ایک بڑے قومی اخبار کو جوائن کیا تو اس ریگولر ملازمت کے ساتھ ساتھ کچھ ذیلی مصروفیات بھی نکل آئیں۔ اخبار میں ابتدا میں رات کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ رات کے ڈھائی 3 بجے فارغ ہو کر گھر پہنچتے اور تھوڑی سی نیند لے کر علیٰ الصبح بیدار ہوجاتے۔ پھر دن کی مصروفیات شروع ہوجاتیں۔ ایک اہم مصروفیت جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے ترجمان ہفت روزہ ’’بیباک‘‘ کی ادارت تھی۔ ہم باقاعدگی سے ’’بے باک‘‘ کے دفتر میں بیٹھنے لگے۔ یہیں ہماری ملاقات ایک نوجوان ادیب اور شاعر عبید السلام زینی سے ہوئی۔ وہ مولانا عبدالباری کے اچھے دوستوں میں سے تھے اور ان سے ملاقات کے لیے اکثر ’’بے باک‘‘ کے دفتر آیا کرتے تھے جو راولپنڈی میں کالج روڈ پر واقع تھا۔ یہ دفتر اصلاً امیر جماعت کا دفتر تھا۔ مولانا عبدالباری جب راولپنڈی میں موجود ہوتے تو ضرور دفتر میں حاضری دیتے اور ان سے گپ شپ رہتی۔ زینی صاحب ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں ملازم تھے۔ ان سے ملاقات جب دوستی میں بدل گئی تو ایک دن کہنے لگے آپ ریڈیو کے لیے کیوں نہیں لکھتے۔ ہم نے جواب میں کہا کہ ریڈیو میں میری کوئی واقفیت نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اتنی فراغت بھی نہیں ہے کہ ریڈیو کے لیے کچھ لکھوں۔ بولے ’’تم کسی دن اسلام آباد آئو میں ریڈیو میں پروڈیوسرز سے تمہاری ملاقات کرادوں گا۔ رہی فراغت تو وہ خود بخود نکل آئے گی‘‘۔
بہرکیف ہم ایک دن ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی پُرشکوہ عمارت میں داخل ہوگئے۔ عبیدالسلام زینی صاحب نے نہایت پرجوش انداز میں استقبال کیا۔ انہوں نے متعدد پروگرام پروڈیوسرز سے ملاقات کرائی اور ہم اسکرپٹ رائٹر کے طور پر مختلف پروگراموں میں حصہ لینے لگے۔ ریڈیو پر آمدورفت کے دوران محترم شکیل فاروقی (برادرِ بزرگ محترم شاہنواز فاروقی) سے ملاقات ہوئی جو بعد میں دوستی میں بدل گئی۔ وہ کہنے لگے ’’آپ اخبار نویس ہیں اس لیے حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ لکھا کریں۔ یہ ریڈیو کا نہایت اہم پروگرام ہے جو خبروں کے بعد نشر ہوتا ہے۔ چناں چہ وہ ہمیں ڈائریکٹر کرنٹ افیئر محترم نذیر بخاری کے پاس لے گئے، تعارف کرایا وہ بہت خوشدلی اور محبت سے پیش آئے کہنے لگے، ہاں ہمیں ایسے لکھنے والوں کی ضرورت ہے جو ہمیں بروقت حالات حاضرہ پر تبصرہ لکھ کر دے سکیں۔ تبصرے کا موضوع ہم دیں گے لیکن تبصرہ بہت جاندار اور تیکھا ہونا چاہیے کہ سننے والے عش عش کر اٹھیں‘‘۔ ہم نے کہا ’’آپ کوئی موضوع دیں ہم بھی اپنا ہنر آزماتے ہیں‘‘۔ انہوں نے فوری طور پر ایک موضوع دے دیا اور بال پوائنٹ اور کاغذ تھماتے ہوئے کہا ’’دوسرے کمرے میں بیٹھ جائیے، آپ کے پاس ایک گھنٹہ ہے، آپ 5 منٹ دورانیے کا ایک تبصرہ لکھ دیں‘‘ فاروقی صاحب تو ہمیں نذیر بخاری صاحب کے سپرد کرکے چلے گئے اور ہم کمرئہ امتحان میں جا بیٹھے۔ اب یاد نہیں کیا موضوع تھا۔بہرکیف ہم نے ایک گھنٹے میں تبصرہ گھسیٹ مارا۔ بخاری صاحب کو دیا تو وہ پڑھنے ہی پھڑک اُٹھے کہنے لگے ہاں ہمیں ایسے ہی تبصرے کی ضرورت ہے‘‘۔
پھر نذیر بخاری صاحب سے بھی ہماری دوستی ہوگئی۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم اخبار میں ملازمت کرتے ہیں۔ اس لیے ریڈیو پر باقاعدگی سے حاضری دینا تو مشکل ہے جس دن تبصرہ لکھوانا مقصود ہو آپ ٹیلی فون پر موضوع بتادیا کریں۔ میں اپنے دفتر میں وقت نکال کر لکھ دیا کروں گا۔ آپ ڈرائیور بھیج کر مسودہ منگوا لیا کریں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی فیکس مشین اور ای میل کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ سارا کام مینوئل ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ بہت دنوں تک چلتا رہا۔ پھر بخاری صاحب نے ایک سب ایڈیٹر کی ڈیوٹی لگادی وہ ٹیلی فون پر ڈکٹیشن لے لیتا تھا۔ اس طرح کام چلتا رہا۔ آخر ریڈیو پر فیکس مشین آگئی۔ ہمارے پاس اخبار میں بھی یہ مشین موجود تھی۔ اس طرح مسودے کی بروقت ترسیل کا کام بہت آسان ہوگیا۔ حالات حاضرہ پر تبصرہ صبح 7بجے کی خبروں اور شام 5بجے کی خبروں کے بعد نشر ہوتا تھا اور توجہ سے سنا جاتا تھا۔ شکیل فاروقی صاحب ریٹائر ہو کر کراچی چلے گئے۔ نذیر بخاری صاحب بھی ریٹائر ہوگئے۔ عبیدالسلام زینی کا دورہ پڑنے سے جوانی میں انتقال کرگئے لیکن ہمارا پروگرام چلتا رہا۔ یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں جب لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن ہوا اور ہم پر دبائو آیا کہ اس کی حمایت میں لکھیں تو ہم نے لاتعلقی اختیار کرلی۔
ریڈیو نے کم و بیش پون صدی تک لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے برصغیر میں آل انڈیا ریڈیو کا بہت شہرہ تھا اس میں ممتاز ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں اور دانشوروں کا جھمگٹا لگا ہوا تھا، ان میں بیشتر تعداد مسلمانوں کی تھی، ٹاواں ٹاواں کوئی ہندو بھی نظر آتا تھا۔ ریڈیو پر بخاری برادران کا بڑا ’’ٹہکا‘‘ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پطرس بخاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ وہاں بھی انہوں نے اپنی زباندانی اور ادب شناسی کا سکہ جمایا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان کے حصے میں جو لوگ آئے ان میں بہت سے بڑے نام تھے۔ ریڈیو پر زبان کی صحت اور تلفظ کی ادائیگی کا بہت خیال رکھا جاتا تھا اور سامعین اس سے اپنی اصلاح کرتے تھے۔ 1965ء کی جنگ میں ممتاز ادیب اشفاق احمد کا ریڈیو پروگرام ’’تلقین شاہ‘‘ بہت مقبول ہوا جس میں اشفاق صاحب خود صداکاری کرتے تھے۔ دیکھا جائے تو ٹی وی چینلز کی بھرمار سے پہلے پاکستان میں کم و بیش نصف صدی تک ریڈیو پاکستان نے لوگوں کے دلوں پر راج کیا ہے۔ اس کی خبروں کو اخبارات کی خبروں سے زیادہ معتبر سمجھا جاتا تھا۔ بی بی سی کی خبریں سننے کا بھی لوگوں میں بہت کریز تھا لیکن 1965ء کی جنگ میں جب اس نے جھوٹی خبریں نشر کیں تو لوگوں نے اسے ’’بی بی سی۔ جھوٹوں کی نانی‘‘ قرار دے دیا۔
اب ہم الیکٹرونک میڈیا اور واٹس ایپ اور فیس بک کے دور میں زندہ ہیں اور اس نے ہماری زندگی میں بے تحاشا کنفیوژن پھیلا رکھا ہے۔