نور مقدم کا قتل ،غیرت کا تھا؟؟

876

ٹھیک ہے ہمارے گھروں میں مارپیٹ ہوتی ہے۔ بیویوں کو غصے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان پر ہاتھ اُٹھایا جاتا ہے۔ ان کے گھر میں کیے جانے والے کاموں کو کام ہی نہیں سمجھا جاتا، جو خواتین روزگار کے لیے باہر نکلتی ہیں اُن کی تنخواہوں پر دوسروں کا کنٹرول ہوتا ہے۔ 2020ء کی رپورٹ کے مطابق پندرہ فی صد لڑکیوں اور خواتین کو شوہروں کے ہاتھوں تشدد یعنی مارپیٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ابھی یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔
دوسرا رُخ یہ ہے کہ باقی 75 فی صد کو ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، ان کے لیے کبھی بھائی بازار کی طرف دوڑ لگاتا ہے کبھی باپ آفس سے آتے ہوئے اُن کی فرمائشیں پوری کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ آخر میں اگر کوئی بھی وقت پر نہ مل سکے تو ماں دروازے پر کھڑے ہو کر محلے کے لڑکے کو دوڑاتی ہے۔ اس کی پسند اور ناپسند کا دھیان اگر کہیں کم رکھا جاتا ہے تو کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اُسی سے پوچھا جاتا ہے۔ یہ ہے مشرق جہاں اسلام نے عورت کو وہ سب کچھ عطا کردیا جو کہ اُس کو چاہیے تھا۔ سب سے پہلے عزت اور اکرام کہ انسان ہونے کے ناتے اللہ کی نظر میں مرد اور عورت سب برابر ہیں نہ تو مرد کی مردانگی زیادہ قابل فخر ہے اور نہ عورت کی نسوانیت کسی طرح باعث عار… ہاں بحیثیت انسان اُس کی خوبیاں اس کو بلند اور برگزیدہ کرتی ہیں۔ پھر انسان ہونے کی حیثیت سے علم کے حصول پر دونوں کا برابر کا حق ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ میدان کار کے لحاظ سے علم حاصل کیا جائے۔ لیکن اس میں بھی نہ کوئی زور زبردستی ہے نہ کسی طرح کا جبر۔
معاشرتی میدان میں دیگر قوموں اور مذاہب میں عورت کو کانٹے میں تول کر برابر کے فرائض سر پر ڈالے لیکن اسلام نے گھر کی ملکہ کا رتبہ دیا، پائوں کے نیچے جنت کی نوید دی۔ کہتے ہیں کہ آج بہت سے گھرانوں میں عورت کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا رویہ رکھا جاتا ہے۔ تو اس کی وجہ بھی دین سے بیگانگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے انٹرویو میں صحیح کہا کہ پاکستان اور مسلمان ممالک میں مغربی ممالک کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ عزت و وقار دیا جاتا ہے۔ یہاں ریپ کے کیس بہت کم ہیں۔ ان کی میزبان ’’جوڑی‘‘ اس بات پر خاموش رہیں کیوں کہ اُن کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔
یہ 2021ء مئی کی خبر ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ فرانس اور سوئیڈن میں (جو آزادی کے بڑے علمبرداروں میں شامل ہیں) خواتین کو ان کے پارٹنر یا سابقہ پارٹنر کی جانب سے قتل کے واقعات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہاں دیکھیے کہ وہاں عورت کے ساتھ کسی رشتے کے لیے بندھنے کا رواج ہی ختم ہوگیا۔ بس ایک پارٹنر ہوتا ہے جو کسی وقت بھی پارٹی بدل لینے کے لیے آزاد ہوتا ہے۔ بتایا گیا کہ فرانس سے تعلق رکھنے والی ’’شینیز‘‘ کے تین بچے تھے انہیں اُن کے شوہر نے گولی مارنے کے بعد آگ لگادی تھی۔ سوئیڈن میں پچھلے پانچ ہفتوں کے دوران چھ خواتین کا قتل ہوا جن کو اُن مردوں نے قتل کیا جو اُن سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ سوئیڈن کو جنسی برابری کے معیار کے لحاظ سے عورتوں کے لیے دنیا بھر میں ایک محفوظ ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ حال یہ ہے کہ سوئیڈن میں 2020ء میں عورتوں پر کسی قریبی عزیز کی جانب سے حملے کے سولہ ہزار چار سو اکسٹھ واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ جو 2019ء میں رپورٹ ہونے والے چودہ ہزار دو سو اکسٹھ کے لحاظ سے ساڑھے پندرہ فی صد زیادہ تھے۔
یہ ہیں برابری کے اس فلسفے کے نتائج جو عورت مارچ کے کرتا دھرتا پیش کرتے ہیں۔ اور یہ ہی وہ نتائج ہیں جو مغرب کے سب سے زیادہ محفوظ ملک سوئیڈن میں رپورٹ ہوئے۔ ہمارے ہاں بھی یہ نظریات ایسے ہی نتائج کا سبب ہوں گے۔ نور مقدم کا قتل اس کی مثال ہے۔ ملزم کہتا ہے کہ ’’وہ مجھے دھوکا دے رہی تھی تو میں نے مار دیا‘‘ کتنی سہولت سے وجہ بیان کردی۔ یہاں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ غیرت کے لیے تھا کہ کیسی عزت اور کیسی غیرت نقصان تو سب سے زیادہ نور ہی کا ہوا، سب سے قریبی رشتہ والدین کا جو آزادی نسواں، ترقی نسواں اور موڈرن ازم کے زیر اثر رہے کہ بیٹی کے سوال جواب کے حق سے دستبرداری اختیار کی۔ اور ایک ایسا مرد جس سے عزت و غیرت کا کوئی رشتہ ہی نہ تھا اس کے ہاتھوں بے عزت ہوئی اذیت اور تشدد سہا اور بالآخر جاں سے گزر گئی۔ اور وہ کہتا ہے کہ یہ میں نے اس لیے کیا کہ وہ دھوکا دے رہی تھی۔ پچھلے دنوں اسمبلی میں گھریلو تشدد کا جو بل پاس ہونے کے پیش کیا گیا وہ دراصل سارے والدین کے لیے ایسی ہی دستبرداری اختیار کرنے کا دبائو تھا۔ خواتین کو جو عزت و اکرام اور آزادی اسلام نے دی ہے وہ اُن کے لیے کافی ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اس کے لیے تعلیمی نصاب کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے تاکہ ابتدا سے بچے اور بچیاں آگاہ ہوں۔ انہیں بڑے ہو کر رشتوں کی عزت و توقیر کا احساس ہو اور رشتوں کے بغیر انسانی بنیادوں پر بھی عزت و احترام دینا جانتے ہوں۔