پی ڈی ایم کے دو مستقبل

303

پی ڈی ایم ایک ایسا سیاسی اتحاد ہے جو ملک کے دستوری، جمہوری نظام کی حفاظت اور بالادستی کے لیے کوشاں ہے۔ اس دستوری جمہوری نظام کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ریاستی کارفرمائی جزواً معطل کر رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا پشت پناہ سامراج ہے جو پاکستان میں ایک استبدادی جمہوری نظام کے قیام کو اپنے مفادات کے فروغ کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
پی ڈی ایم کی سب سے بڑی اور فعال جماعت مسلم لیگ (نون) ہے اور عملاً یہی جماعت پی ڈی ایم کی پالیسی ساز ہے۔ مسلم لیگ نون ایک ایسی دہریہ جماعت ہے جس نے بارہا اسٹیبلشمنٹ اور سامراج سے سمجھوتے کی بنیاد پر حکومت کی ہے لیکن 1954 سے لے کر 2018 تک کبھی بھی یہ سمجھوتے دیرپا ثابت نہیں ہوئے اور پاکستان کے دستوری نظام کو استبدادی جمہوری بنانے کی کشمکش ہمیشہ جاری رہی۔ مسلم لیگ نون آل انڈیا مسلم لیگ کی وارث جماعت ہے اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے برخلاف اس کے لیے ایک استبدادی جمہوری نظام میں ماتحت حیثیت اختیار کرنا قابل قبول نہیں۔ اس بات کا اظہار اس کا رہبر اعلیٰ (نواز شریف) برملا کرتا ہے اور یہی مسلم لیگ کے عام کارکن کے دل کی آواز ہے۔ اس کے حرکیاتی نعرے ووٹ کو عزت دوکا یہی مطلب ہے۔ مسلم لیگ (نون) کی قیادت ابن الوقت ضرور ہے لیکن اس کا عام کارکن ایک مسلم قوم پرست ہے جو پاکستان سے شدید محبت کرتا ہے اور اس قومی عصبیت کا اظہار لازما لبرل جمہوری تناظر ہی میں ممکن ہے۔ استبدادی جمہوری نظام قومی عصبیت کے عوامی اظہار کو مقید کر دیتی ہے۔
آج مسلم لیگ (نون) کی قیادت کا ایک دھڑا شہباز شریف کی سربراہی میں اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی سے ساز باز کر رہی ہے۔ اگر مسلم لیگ (نون) نے یہ راہ اختیار کی تو وہ لازماً اپنی نظریاتی عوامی تائید کھوتی چلی جائے گی۔ اس کی عوامی بنیاد میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو دراندازی کا موقع مل جائے گا۔ اس نظریاتی بیس کو مجروح کرنے کی قیمت مسلم لیگ کو جلد یا بدیر دینا پڑے گی۔ ہو سکتا ہے کہ 2023 کے انتخابات کے نتیجہ میں وہ دوسری دہریہ جماعتوں کے اشتراک سے مخلوط حکومت قائم کرے لیکن اس کی اسٹیبلشمنٹ سے رسہ کشی جاری رہے گی اور 1954 سے لے کر 2018 تک کے تجربات دوبارہ دہرائے جائیں گے۔ یہ مسلم لیگ کی سیاسی خود کشی کی راہ ہے کیونکہ اس کے عام کارکن کے لیے استبدادی جمہوری تحکم کی نظاماتی تنفیذ قابل قبول نہیں۔
تحریک پاکستان اور تحریک نظام مصطفی سے ثابت ہے کہ مسلم قوم پرستی کی بنیاد پر عوامی تحرک پیدا کرنے کے لیے اسلامی شعائر کو سیاسی جدوجہد میں فروغ دینا ضروری ہے۔ استبدادی قوتوں کی نظاماتی سیاسی گرفت کو ڈھیلا کرنے کے لیے عوامی انقلابی تحرک لازمی ہے۔ عوامی انقلابی تحرک صرف عوامی تحریکی اسلامی تشخص کو فروغ دے کر برپا کیا جا سکتا ہے اور اسی تحرک کی بنیاد پر استبدادی قوتوں کا سیاسی اثر و رسوخ محدود کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات تحریک لبیک کی 2017 کے بعد چلائی گئی مہمات سے ثابت ہوتی ہے۔ اس نے ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے جو تحرک برپا کیا اس نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی چولیں ہلا دیں اور اس کو کچلنے کے لیے تمام ماورائے دستور اقدامات کا سہارا لینا پڑا۔ لہٰذا اگر دستوری جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ہے تو لازم ہے کہ پی ڈی ایم کو تحریک نظام مصطفی کے خطوط پر ایک ہمہ گیر عوامی مہم چلانے کی ابتدا کرنا چاہیے۔
الحمدللہ اسلام دشمن جماعتیں (پیپلز پارٹی اور اے این پی) پی ڈی ایم سے نکال دی گئی ہیں اور ان کو واپس لانے کی تمام کوششیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کر دینی چاہئیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر مسلم لیگ (نون) اس حکمت عملی کو قبول کرے تو پی ڈی ایم میں شامل کوئی دوسری جماعت اس کی مزاحمت نہیں کرے گی اور اس کی کامیابی کے نتیجہ میں استبدادی قوتوں کا سیاسی تغلب بتدریج محدود ہوتا جائے گا۔ مسلم لیگ کا عام کارکن اس تبدیل شدہ حکمت عملی کو دل و جان سے قبول کرے گا۔ الحمدللہ کہ پی ڈی ایم کی قیادت مولانا فضل الرحمان کے ہاتھوں اور عوامی اسلامی قیادت فراہم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر پی ڈی ایم یہ راہ اختیار کرے اور اپنی تحریک تنفیذ نظام اسلامی اور سامراج کی مخالفت پر استوار کرے تو دیگر اسلامی جماعتوں کو اس میں فی الفور شامل ہو جانا چاہیے اور اس بات کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ غیرسیاسی اسلامی جماعتیں اور مذہبی گروہ اس کی پشت پناہی اختیار کریں۔ شرط یہ ہے کہ اس کا انتخابی ایجنڈا اسلامی ہو جس میں عمران خان کی حکومت کے تمام اسلام مخالف اور سامراج نواز اقدامات کے رد کرنے کا وعدہ ہو۔ تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کی مہم کی بھرپور مخالفت کرے، فرانس سے تمام تعلقات منقطع کرنے کا دعوی کرے اور 2023 کے انتخابات عوامی اسلامی جذباتی تحرک کی بنیاد پر لڑنے کی ابھی سے تیاری کرے۔ پاکستان میں دستوری جمہوری نظام کو استبدادی قوتوں کی دست برد سے محفوظ رکھنے کا یہی طریقہ ہے۔