5 اگست ۔ یوم سیاہ، یوم استیصال

533

5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی ریاست کی خصوصی اہمیت کے خاتمے کے دو برس مکمل ہونے پر مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے یوم سیاہ منایا۔ آزاد کشمیر اور پاکستان میں اس موقع پر یوم استیصال کا نام دیا گیا۔ پاکستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں آباد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں آباد کشمیری مسلمانوں نے بھارت کے مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔ دو برس قبل عالمی اور علاقائی حالات سے شہ پا کر وزیراعظم بھارت نریندر مودی نے اپنے طویل المیعاد ایجنڈے پر عمل کا آغاز کردیا تھا۔ مودی حکومت کے اس یک طرفہ اقدام نے کشمیریوں کی مزاحمتی جدوجہد کو تیز کردیا ہے۔ دو برس کے طویل محاصرے، لاک ڈائون، فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود مودی حکومت کشمیریوں کے عزم اور جذبہ ٔ آزادی کو زیر نہیں کرسکی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے تصدیق کی ہے کہ دو سال بعد بھی کشمیری بھارتی فیصلے کے خلاف ہیں۔ ایک بھارتی ٹی وی کے مطابق دستور ہند کی دفعہ 370 کے خاتمے کے دو برس گزر جانے کے باوجود جموں و کشمیر خاص طور پر جموں کے لوگ بھارتی حکومت کے اس فیصلے سے کافی ناراض نظر آرہے ہیں۔ جموں کے نوجوانوں نے بھارتی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ دھوکا دہی سے کام لیا ہے۔ 370 کے خاتمے کے وقت کیے گئے وعدے محض وعدے ہی ثابت ہوئے۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق جن لوگوں نے بھارتی اقدام پر اطمینان کا اظہار کیا تھا وہ بھی مایوس ہوچکے ہیں جب کہ بھارت کے دائرے میں سیاست کرنے والی مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت نے بھی دفعہ 370 اور 35-A کے خاتمے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ جس وقت بھارت نے یہ فیصلہ کیا تھا اس وقت بھی بھارت نواز سیاسی قیادت جن میں فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے رہنما شامل ہیں سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اہم فریق ہے اس لیے اسے سخت ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان کو یہ خصوصی نعمت حاصل ہے کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ بے شمار مسائل پر باہم متصادم سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کے حوالے سے یکسو ہیں، لیکن اس کے باوجود ہر حکومت سے یہ شکایت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے فرائض انجام دینے میں ’’نامعلوم‘‘ وجوہ کی بنا پر کمزوری اختیار کررہے ہیں۔ یہ عجیب و غریب تضاد ہے کہ پاکستان کی دفاعی اور تزویراتی پالیسی کا مرکزی نکتہ بھارت کے پاکستان کے خلاف عزائم ہیں۔ اس کی سب سے بڑی علامت مسئلہ کشمیر ہے جو قیام پاکستان کے دن ہی سے انگریزی سیاست نے پیدا کیا ہے۔ 70 برس سے زائد مدت گزر چکی ہے، ان سات دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت نے دو برس قبل 5 اگست کا یکطرفہ قدم اٹھالیا۔ ان دو برسوں میں پاکستان نے بھارت کے اس فیصلے کی مزاحمت کی ہے اور وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ جب تک بھارت 5 اگست کے فیصلے کو واپس نہیں لے گا بھارت سے مذاکرات نہیں کیے جاسکتے۔ ساتھ ہی 5 اگست کو یوم استیصال کشمیر منانے کا اعلان بھی کیا، لیکن جس شدت سے حکومت پاکستان کو سفارتی سطح پر بھارت کے خلاف مہم چلانی چاہیے تھی وہ نظر نہیں آئی، امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے حکومت کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی اہمیت کے خاتمے کے اقدام کو دو سال گزر گئے مگر اسلام آباد کے ایوانوں میں خاموشی چھائی ہے۔ 5 اگست 2019ء کے اقدام کے بعد ایک مسلسل لاک ڈائون کی سی کیفیت ہے، ہزاروں نوجوان جیلوں میں ہیں، کشمیر میں ہندو آباد کاری جاری ہے مگر انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے باوجود مغربی دنیا اور عالمی ادارے شرمناک حد تک خاموش ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بھی بار بار توجہ دلانے کے باوجود کشمیر کے مقدمے کو نمایاں کرنے کے لیے کوئی پائیدار اقدام نہیں کیا۔ صرف لفظوں کی بمباری جاری ہے اور دعوئوں کے پہاڑ بنائے جارہے ہیں۔ صرف امیر جماعت اسلامی پاکستان ہی حکومت کی بے عملی پر شکوہ کناں نہیں ہیں بلکہ متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے بھی حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر جارحانہ سفارت کاری شروع کی جائے، جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیریوں کی ٹھوس اور بھرپور مدد کی جائے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے دو سال پورے ہونے پر یوم سیاہ کے سلسلے میں ویڈیو بیان جاری کیا تھا۔ متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ کی جانب سے حکومت پاکستان کے اقدام کو روایتی سست روی اور محض بیان بازی قرار دینا تشویشناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان، بوڑھے، خواتین، بچے اپنی جان و آبرو کو خطرے میں ڈال کر تحریک آزادی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یوم سیاہ اور یوم استیصال کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے جارحانہ سفارت کاری شروع کرے۔