اشیائے ضرورت کے نرخوں میں اضافہ

248

مہنگائی کے مارے عوام کو حکومت کی جانب سے جو تھوڑا بہت ریلیف ملتا ہے اس کا ذریعہ یوٹیلیٹی اسٹور ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹور کے ذریعے زرتلافی دے کر بعض بنیادی اشیا نسبتاً کم قیمت پر شہریوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ حکومت کے اقدامات سے مسلسل مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹور کی انتظامیہ نے مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرادیا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹور پر تیل، گھی، چاول، خشک دودھ، شیمپو، صابن اور کپڑے دھونے کے پائوڈر کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹور کی انتظامیہ کے جاری کردہ اعلان کے مطابق قیمتوں کا تعین بازار سے اشیا کی خریداری سے ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی چینی، آٹا اور گھی کے نرخوں میں اضافہ کیا جاچکا ہے مختلف کمپنیوں کے خوردنی تیل کی قیمتوں میں 46 روپے فی لیٹر تک اضافہ کیا جاچکا ہے۔ جب کہ گھی کی قیمت میں 34 روپے فی کلو تک اضافہ کیا گیا ہے۔ بچوں کے لیے خشک دودھ کی قیمتوں میں 10 سے 40 روپے تک اضافہ ہوا ہے۔ شیمپو کی بوتل کی قیمت میں 4 سے 20 روپے، کپڑے دھونے کا پائوڈر 6 سے 45 روپے، نہانے کے صابن کی قیمت میں 3 سے 7 روپے تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جب کہ حکومت پٹرول، ایل این جی اور سی این جی کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافے کا حکم نامہ جاری کرچکی ہے۔ حکومت اس بات کو خود تسلیم کرتی ہے کہ مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس کے پاس قیمتوں میں اضافے کو روکنے کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹور پر زرتلافی دے کر سستی اشیاء فراہم کرنا بھی کوئی مستقل علاج نہیں ہے لیکن حکومت یوٹیلیٹی اسٹور پر بھی سستے داموں بنیادی اشیائے ضروریات فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ ملک کے اقتصادی حالات بھی دگرگوں ہیں اور لوگوں کی آمدنی میں اضافے کے ذرائع بھی محدود ہوچکے ہیں۔ اسی کے ساتھ کورونا کی وبا کی وجہ سے لاک ڈائون نے اقتصادی سرگرمیوں کو محدود کردیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو موقع مل گیا ہے اور وہ حکومت کو ناکام قرار دے رہی ہیں، لیکن موجودہ اور سابق حکومتوں کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بات عوام پر واضح ہوچکی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی وجہ سے پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی ہوچکی ہے جس کا اثر ہر شے کی قیمت پر پڑتا ہے۔ ارتکاز دولت اور غربت و محرومی میں ایک ساتھ تیزی سے اضافہ ہوگیا ہے۔ معیشت پر سودی گرفت مہنگائی اور بے روزگاری کا بنیادی سبب ہے لیکن سیاسی جماعت اور اس کی قیادت اس راستے پر آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔