افغانستان پر جبری قبضہ قبول نہیں کرینگے ،مشیر قومی سلامتی معید یوسف

120

اسلام آباد(خبر ایجنسیاں) وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ افغانستان کی حکومت اور طالبان کو امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے سمجھوتہ کرنا چاہیے۔ملکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق
معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کسی بھی صورت میں افغانستان میں عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ افغانسان میں ماضی میں جنگ کے پاکستان پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔واشنگٹن کے ایک ہفتے طویل دورے کے اختتام پر واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان طالبان پر کوئی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ کابل میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رکھے اور اسے اب افغان مسئلہ کے حل کے لیے فوجی فتح کی تلاش سے روکنے کی ضرورت ہے، آئندہ کسی بھی مذاکرات میں افغانوں کی ایک وسیع رینج کو شامل کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کہ ہم نے یہ واضح کردیا ہے کہ ہم کابل پر زبردستی قبضے کو قبول نہیں کریں گے، دنیا کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکا ایک سیاسی تصفیے میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کچھ سمجھوتہ کرنا پڑے گا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں تشدد کو روکنا ہوگا۔معید یوسف نے کہا کہ ان کے امریکی ہم منصب جیک سلیوان اور امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دیگر عہدیداروں نے پاکستان سے کوئی مخصوص درخواستیں نہیں کیں البتہ اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ ہم افغان تنازع کے تمام فریقوں کو کتنی جلدی مخلصانہ مذاکرات کے لیے ایک جگہ لاسکتے ہیں۔انہوں نے پاکستان کی جانب سے طالبان سے فائدہ اٹھانے کے تاثر کو مسترد کیا اور کہا کہ پاکستان نے اپنا محدود اثر و رسوخ استعمال کرکے طالبان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ دوحہ میں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں، اب جبکہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ہوا ہے تو پاکستان کے طالبان پر اثر و رسوخ میں مزید کمی آئی ہے۔انہوں نے پاکستان پر افغانستان کی طویل جنگ کے بوجھ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان اس وقت بھی35 لاکھ افغان مہاجرین کا مسکن بنا ہوا ہے، پاکستان کسی بھی صورت میں افغانستان میں طویل عدم استحکام دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے کہ اس کے اثرات ماضی میں پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔