مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام ہندوتوا ایجنڈے کی کڑی ہے‘ آئی پی ایس

179
اسلام آباد: آئی پی ایس کشمیر ورکنگ گروپ کے اجلاس سے مقررین خطاب کررہے ہیں

اسلام آباد (اسٹاف رپورٹر) انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے کشمیر ورکنگ گروپ کے پندرھویں اجلاس میں مقررین نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوششوں کو بی جے پی کی ہندو بالا دستی ایجنڈے کی ایک کڑی قراد دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور اسے یکسر مسترد کر دیا۔ آئی پی ایس کے زیر اہتمام ہونے والے اس اجلاس کا ایجنڈا گزشتہ 2 برس میں کشمیر کی آبادی کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ اس اجلاس کے مقررین میں سابق سفیر اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سید ابرار حسین، نامورکشمیری صحافی افتخار گیلانی، آزاد جموں و کشمیر کی سابق وزیر فرزانہ یعقوب، سابق سفیر اور آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ تجمل الطاف، لیگل فورم فار آپریسڈ وائسز آف کشمیر سے قانونی ماہرایڈووکیٹ ناصر قادری اور آئی پی ایس کے جنرل مینیجر آپریشن نوفل شاہ رخ شامل تھے جبکہ اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمن نے کی۔ مباحثے کے دوران اس بات پر توجہ دلائی گئی کہ مودی حکومت کے نافذ کردہ نئے قوانین کے تحت، وادی سے باہر کے متعدد افراد کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ دیے جا رہے ہیں کیونکہ اب کوئی بھی شخص جس نے اس علاقے میں 15 سال تک تعلیم حاصل کی ہو یا رہائش پذیر رہا ہو، وہ اس کا اہل ہے۔ یہاں تک کہ بھارتی سرکاری ملازمین جنہوں نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 10 سال تک خدمات انجام دیں، ان کے بچے زمین اور جائداد خریدنے کے اہل ہیں۔ مقررین نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں، جنہوں نے پہلے ہی دسیوں ہزار ایکڑ نجی اور سرکاری اراضی پر غیرقانونی قبضہ کر رکھا ہے، کو کسی بھی ایسی اراضی پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے خلاف قانونی استثنیٰ دیا گیا ہے جسے وہ نئے قوانین کے تحت ’اسٹریٹجک‘ سمجھتے ہوں۔ ناصر قادری نے کہا کہ اردو اب وادی کی واحد سرکاری زبان نہیں ہے کیونکہ حکومت نے ہندی، ڈوگری، انگریزی اور کشمیری کو دیگر سرکاری زبانوں کے طور پر شامل کیا ہے۔ انہوں نے جموں و کشمیر انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن قائم کرنے کے حکومتی اقدام کی مذمت کی جو مقبوضہ وادی میں کوئی بھی زمین حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت ہو تو کارپوریشن حکومت کو زمین کے حصول کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ اس اختیار نے اسے قانون سے بالاتر کر دیا ہے کیونکہ کوئی بھی عدالت کارپوریشن کے خلاف اس سلسلے میں کارروائی نہیں کر سکتی۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا کی سربراہی میں قائم کمیشن کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے، جس نے حال ہی میں وادی کا دورہ کیا تھا، افتخار گیلانی نے کہا کہ کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق وادی کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ لداخ سمیت جموں و کشمیر کے لوگوں میں گونج رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیریوں نے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کو کشمیر میں آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے کا نفاذ قرار دیا ہے۔ سیشن کو بتایا گیا کہ بھارتی حکومت وادی میں کشمیری مسلمانوں کی انتہائی کمزور نمائندگی کے درمیان باہر سے افسروں کو بیوروکریسی میں لا رہی ہے تاکہ حکومتی مشینری کو چلایا جا سکے۔ مزید یہ کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر کی سربراہی میں قائم ایک پینل بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سرکاری ملازمین کے معاملات کا جائزہ لے گا جنہیں بھارتی آئین کے ایک قانون کے تحت برطرف کیا جا سکتا ہے۔ نئے قوانین کے تحت، سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواستوں کو اب سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ درخواست گزاروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ انتخاب کے لیے فوجداری تفتیشی محکمے (CID) سے ایک جامع ’تسلی بخش رپورٹ‘ پیش کریں۔نئی میڈیا پالیسی کے بارے میں ماہرین کو تشویش ہے کہ اب ایک درمیانی سطح کا بیوروکریٹ فیصلہ کرے گا کہ خبر ’جعلی‘ ہے یا حکومتی پیمانے پر پورا اترتی ہے۔ مقررین کی رائے میں نئی پالیسی کی عدم تعمیل پر اخبارات سرکاری اشتہارات کی اشاعت سے محروم ہو جائیں گے۔ مزید یہ کہ کئی صحافیوں کے خلاف سزا کے طور پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ سید ابرار کا خیال تھا کہ آرٹیکل 370 اور A 35کو منسوخ کرنا بھارت کی طرف سے آبادی کو تبدیل کرنے کا اشارہ تھا کیونکہ فروری 2021 تک 18 لاکھ بناوٹی یا جعلی ڈومیسائل پہلے ہی جاری ہو چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے بھارت کے ناپاک منصوبوں سے پردہ اٹھانے اور دنیا کو اس کا اصلی چہرہ دکھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ سیشن کے اختتام پر خالد رحمن نے کہا کہ ان جارحانہ اقدامات کے باوجودکشمیریوں میں مزاحمتی جذبات اب بھی غالب ہیں اور کنٹرول لائن کے اس پار کشمیریوں میں مایوسی پیدا کرنے کے لیے بیانیہ کی ایک جنگ جاری ہے۔ انہوں نے 5 اگست کے بعد کے منظر نامے میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد کو ایک نئے مرحلے کا آغاز قرار دیا۔ انہوں نے وادی میں بیرونی ممالک کے سفارت خانے کھولنے کے بھارتی منصوبوں کے خلاف خبردار کیا جس کا مقصد اپنے دعوﺅں کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ سفارتی محاذ پر اپنے اقدامات کو تیز کرے۔