کامیابی کے جملہ حقوق محفوظ ہیں

593

آزاد کشمیر کے لوگوں نے اس مرتبہ بھی حکمران جماعت کا کوڑا کرکٹ اپنے کا ندھوں پر اٹھالیا ہے۔ وہ کچرا جو پھینک دیے جانے کے قابل ہوتا ہے، پاکستان میں علٰیحدہ علٰیحدہ، ری سائیکل اور اسمبل کرنے کے بعد اہل کشمیر کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن آزاد کشمیر کو دیے گئے اعداد وشمار کے مطابق 45میں سے 25نشستیں تحریک انصاف نے حاصل کیں۔ وہ مہربان جنہوں نے اپنی پسندیدہ پروڈکٹ الیکشن کے ذریعے پاکستان میں لانچ کی تھی، انہوں نے جموں وکشمیر کے رائے دہندگان کے ڈبے بھی اسی سے بھردیے یا اس کامیابی کی وجہ کچھ اور تھی۔ یہ کہ اہل کشمیر سہاگن وہی جو پیا من بھائے کا رویہ رکھتے ہیں۔ وہ پنڈی اسلام آباد کی تیار کردہ پروڈکٹ پسند کریں یا نہ کریں، اپنا ووٹ ضائع نہیں کرتے۔ وہ احمق نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں جب چاروں طرف سے تیر برس رہے ہوں تو تیرانداز کے ساتھ کھڑے ہونے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔
دوسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی رہی جسے گیارہ نشستیں حاصل ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے نبیل گبول نے ایک ٹی وی پروگرام میں شکوہ کیا کہ ’’ہم سے سولہ سیٹوں کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ہمیں صرف گیارہ ملیں‘‘۔ ہمیں شرکاء پروگرام کی یہ بات غیر مناسب لگی جس میں انہوں نے پوچھا ’’ایسا وعدہ کس نے کیا تھا‘‘۔ ایسا وعدہ ڈے کئیر سینٹر والوں کے سوا بھلا کون کرسکتا ہے۔ وہ جانتے ہیں ان کا کون سا بچہ کتنا وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بلاول سمجھ دار ہوتے جارہے ہیں۔ اسی لیے انتخابی مہم چھوڑ کر امریکا چلے گئے۔ وہ جان گئے ہیں کہ بڑے بڑے جلسے کرنے اور اپنے آپ کو تھکانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ جتنا بڑاجال پھینکا جائے، جتنی ہی مچھلیاں جال میں پھنس جائیں، ترازو بہرحال کسی گھامڑ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ آصف علی زرداری کے بیٹے سے زیادہ یہ بات کون جان سکتا ہے کہ پورا تو لنا، سچ بولنا اور وعدوں کو پورا کرنا پاکستان میںحکمران طبقے کے نزدیک گھامڑ پن ہے۔
اس میں بھی حیرت کی کوئی بات نہیں کہ تحریک انصاف نے 32فی صد ووٹ حاصل کیے اس کے حصے میں 25سیٹیں آئیں۔ مسلم لیگ ن نے 25فی صد ووٹ حاصل کیے اس کے حصے میں 6سیٹیں آئیں جب کہ 18فی صد ووٹ حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کے حصے میں 11سیٹیں آئیں۔ یہ سنگین دھاندلی نہیں جمہوریت کا حسن ہے اور صاحبو ’’حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے‘‘۔ کس نے کتنے ووٹ لیے اور اسے کتنی سیٹیں ملیں؟ جمہوریت سے ناواقف کوئی احمق ہی ان باتوں پر غور کرسکتا ہے۔ چوری شدہ الیکشن ہوں یا چوری اور لوٹی ہوئی کوئی بھی چیز، جس حالت میں اور جتنی مقدار میں واپس مل جائے اللہ کا شکرادا کرنا چاہیے۔ یہ نتائج پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیے پیغام ہیںکہ ’’تمہاری خدمات کی تاحال ضرورت نہیں۔ وہ ساری باتیں جن پر تمہیں عمل کرنے کے لیے کہا گیا تھا، بطور ایک سویلین حکومت تم نے ذمے داری سے ان پر عمل نہیں کیا لہٰذا اب جتنا چاہو عوام کے دلوں میں گھر کرلو تمہیں دھرتی ماں کی فکر سے آزاد رکھا جائے گا۔ ملک کی بے حرمتی اور لوٹ مار میں تمہیں شریک نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
سوشل میڈیا کی تیز رفتاری پریوں کی ہر کہانی سے پردہ اٹھا دیتی ہے۔ ہر طرح کی پروگرامنگ مثبت نتائج کے باوجود اپنی بد حواسیاں یہاں آکر ظاہر کردیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش ایک ویڈیو کلپ میں الیکشن کمیشن کے اسٹاف کے پاس ووٹوں سے بھرے ہوئے تھیلے دکھائی دے رہے ہیں اور وہ شکایت کررہے ہیں کہ ریٹرننگ آفیسر مکمل ریکارڈ کے بغیر ہی غائب ہوگیا ہے۔ ایک اور کلپ میں فوجیوں کی ویگن پر تحریک انصاف کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ اس میں کیا شک کہ ان ویڈیوز پر اعتماد کرنا ملک کے عظیم مفاد کے منافی ہے۔ اسے ہمارے مقدس اداروں کے خلاف شرمناک فریب کاری کی کوشش کے سوا کچھ نہیں سمجھنا چاہیے۔ جس میں انڈیا کے ملوث ہونے کا پورا امکان ہے۔کلبھوشن یادو کے معاملے میں انڈیا کو جس عالمی رسوائی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ممکن ہے اس ہزیمت کا بدلہ بھارتی ایجنسیوں نے فوجی گاڑی پر تحریک انصاف کا پرچم لگا کر لیا ہو۔ بہرحال ان معمولی غلطیوں کا پولنگ اور ووٹنگ سے تعلق جوڑنا مناسب بات نہیں۔ ریاستی ادارے ہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں کس کی گاڑی پر قومی پرچم لگانا ہے اورکس کی گاڑی سے اُتارنا ہے۔ ہوسکتا ہے لگانے اُتارنے کی افراتفری میںکشمیر کا پرچم لگانے کے بجائے تحریک انصاف کا پرچم گاڑی پر لہرادیا گیا ہو۔
آزاد جموں وکشمیر میں منصفانہ الیکشن کا کریڈٹ یقینا الیکشن کمیشن کو جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اگر اپنے اختیارات استعمال کرتا تو بڑا خلفشار ہوسکتا تھا۔ تحریک انصاف کے امورکشمیر اور گلگت کے وزیرعلی امین گنڈاپور کو انتخابی قواعد وضوابط کو دیدہ دلیری سے پامال کرنے کی وجہ سے ’’فہرست بدکرداراں‘‘ میں شامل کرکے علاقے سے نکل جانے کا الیکشن کمیشن کا حکم، سنی ان سنی کرکے وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی رٹ کا جو مظاہرہ کیا اور الیکشن کمیشن نے جس طرح اپنے حکم پر عمل کروانے سے گریز کیا اسے الیکشن کے قواعد وضوابط میں بنیادی عقیدے کے طور پر شامل ہونا چاہیے۔ رواداری اور نظرانداز کرنے ہی میں سب کی جیت ہے۔ کسی کو قانون کی پابندی پر مجبور کرنا ایک تکلیف دہ بات ہے۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ اپنا طرزسیاست بدلے۔ اس پراہل کشمیر سے کیا کہا جائے بجز اس شعر کے:
جو گزر رہی ہے گزار دو، نہ گلہ کرو نہ برا کہو
جو تمہارا حال ہے دوستو وہی سارے ملک کا حال ہے
کہا جارہا ہے کہ آزاد جموں وکشمیر کے انتخابی جلسوں میں مریم نواز کی کارکردگی بہت متاثر کن تھی۔ ہمیں مریم نواز سے زیادہ شہباز شریف کی عدم کارکردگی متاثرکن لگی۔ وہ ابھی تک امید کے شجر سے وابستہ کسی بھی ایسی حرکت سے گریزاں ہیں جس سے اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے مقابل آیا جاسکے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مہربانوں کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں چلتا وہ ن لیگ کی گاڑی کو گیراج ہی میں رکھنا چاہتے ہیں تادیر کہ حرکت کا اشارہ نہ مل جائے۔ نواز شریف سمجھتے ہیں گاڑی کو تیزرفتاری کے ساتھ ہائی وے پر نہ چلایا جاتا رہا تو گاڑی کی بیٹری ختم ہوجائے گی اور وہ بند ہوجائے گی۔
شہباز شریف کے تازہ انٹرویو نے تو کمال ہی کردیا جسے نواز شریف کا ’’بیانیہ‘‘ قرار دیا جاتا رہا وہ انہیں غلطیاں باور کررہے ہیں۔ ان کا یہ فرمان کہ اگر ہم 2018ء کے الیکشن میں درست حکمت عملی اپناتے تو نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن سکتے تھے۔ حیران کن ہے۔ نوازشریف کہتے آئے ہیں کہ ہماری حکومت کا تختہ الٹا گیا ہے۔ ہمیں سازش کے ذریعے نکالا گیا ہے۔ عدلیہ کو استعمال کرکے ہمیں محاصرے میں لیا گیا۔ اگر یہ باتیں درست ہیں تو کسی بھی درست حکمت عملی سے مہربانوں سے 2018ء کے الیکشن میں نواز شریف زندہ باد کا نعرہ کیسے لگوایا جاسکتا تھا؟ شہباز شریف کا یہ کہنا کہ گزشتہ الیکشن میں درست حکمت عملی نہیں اپنائی گئی کا مطلب ہے کہ نواز شریف کی احتجاج کی پالیسی غلط تھی۔ کیا شیخ رشید کا کہنا درست ثابت ہورہا ہے ن لیگ میں سے شین لیگ نکل رہی ہے۔ کیا کہا جاسکتا ہے۔ شہبازشریف کو بیان سے مکرنے میں کتنی دیر لگے گی؟ بہرحال آزاد جموں وکشمیر میں الیکشن ہوں یا باقی ماندہ پاکستان میں کچھ ووٹ مہربانوں کی طرف سے آئیں گے اور وہی فیصلہ کن ہوں گے۔ اس سسٹم میں سب اپنے اپنے کام کررہے ہیں۔