پانچ اگست، یوم استیصال

335

پاکستان کے عوام آج پانچ اگست کو بھارت کی طرف سے کشمیر کی شناخت اور تشخص پر آخری وار کے دوبرس پورے ہونے کے موقع پر یوم استیصال منارہے ہیں۔ اس دن بھارت نے اپنی برسوں کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دیتے ہوئے کشمیر کی بچی کھچی شناخت اور نیم مردہ قوانین کی قبا کو تار تار کر دیا تھا اور بھارت اپنے مکروہ سامراجی عزائم کے ساتھ کھل کر سامنے آیا تھا۔ وہ عزائم جو ارمان بن کرستر برس سے بھارتیوں کے سینوں میں مچل رہے تھے اور وہ اس راہ پر آہستہ روی کے ساتھ چلتے جا رہے تھے۔ دوبرس قبل عالمی اور علاقائی حالات کو موافق دیکھ کر مودی نے اس طویل المیعاد ایجنڈے پر عمل درآمد کردیا تھا۔ مودی نے2014میں پہلی بار برسر اقتدار آتے ہی اس جانب سفر شروع کیا تھا اور یہ اشارے دینا شروع کیے تھے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے معاملے پر دوبار ہ بحث کریں گے۔ نریندر مودی کے دفتر میں تعینات وزیر مملکت جتندر سنگھ نے 2014 ہی میں کھل کر کہہ دیا تھا کہ نئی حکومت دفعہ 370 پر ازسرنو بحث کا آغاز کرے گی کیونکہ اس دفعہ نے ملک کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچایا ہے اور نفسیاتی دوریوں کو بڑھایا ہے۔ جتندر سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت کو اس دفعہ کو ختم کرنے کی جلدی نہیں اسے جمہوری انداز میں ختم کیا جائے گا۔ مودی پہلے دور میں اس کی ریہرسل کرتا رہا دوسری بار اکثریت حاصل کرنے کے فوراً بعد مودی نے اس جانب چھلانگ لگادی۔ اس وقت بھی مودی کے اعلیٰ عہدیدار کے اس بیان پر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے تو سخت جواب دیا مگر پاکستان کی طرف سے مکمل خاموشی اپنائی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں سرے سے کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا اور پاکستان کی طرف سے اس معاملے کو اہمیت ہی نہیں دی گئی جس سے شہ پاکر مودی اس سمت میں آگے بڑھتا گیا۔
پاکستان کی طرف سے ظاہر کیا جانے والا ردعمل مودی کے وہم وگمان میں نہیں تھا۔ عین ممکن ہے کہ کئی عرب ملکوں نے بھی مودی کو یہ یقین دلایا ہو کہ وہ پاکستان کو ایک حد سے زیادہ ردعمل دکھانے نہیں دیں گے اور پاکستان کے ردعمل کو سنبھال لیا جائے گا یہی وجہ ہے کہ پانچ اگست کے بعد کئی عرب سفارت کار اور کارندے پاکستان کو صبر وشکر کی تلقین کرنے کے لیے اسلام آباد کے چکر کاٹتے رہے۔ گزشتہ برس عمران خان اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اہل کشمیر کو یہ پیغام بھی دے گئے تھے کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ بہ الفاظ دیگر کشمیریوں کے ساتھ وہ سلوک ہر گز نہیں کرے گا جو عرب دنیا نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا۔ یعنی ہاتھ پائوں باندھ کرانہیں یکا وتنہا اسرائیل کے آگے چھوڑ دیا۔ ایک ایک کرکے عرب ریاستیں فلسطینیوں کی پشت سے ہٹتی چلی گئیں۔ اس عمل کا آغاز کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے سے ہوا جب فلسطینیوں کے کاز کے سب سے سرگرم عرب ملک مصر نے عرب لیگ کو نظر انداز کرکے اسرائیل کے ساتھ بقائے باہمی کا معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے کا عنوان ’’سب سے پہلے میری جان‘‘ تھا یعنی مصر نے فلسطین کاز کو خدا حافظ کہہ کر اپنے جامے میں سمٹنے اور محدود ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جس جان کو بچانے کے لیے انورالسادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا تھا وہ بھی بچ نہ پائی اور ایک ناراض مصری کی سنسناتی گولی نے ان کا کام تمام کیا۔
کیمپ ڈیوڈ فلسطین کے موجودہ حال اور انجام تک پہنچنے کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اس کے بعد عرب لیگ مزاحمت تو کرتی رہی مگر اس کی ساکھ اور اخلاقی حیثیت مصر کے اس فیصلے سے بری طرح متاثر ہوئی۔ مصر کے فلسطینیوں کی پشت سے ہٹنے پراسرائیل نے سُکھ کا پہلا سانس لیا۔ اس کے بعد ایک ایک کرکے عرب ریاستیں اور حکمران فلسطین کے کاز سے پیچھے ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ فلسطین کے شہرہ آفاق گوریلہ لیڈر یاسر عرفات تنہا ہو کر رہ گیا۔ عالم تنہائی میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ خود سپردگی کا معاہدہ کیا جسے اوسلو معاہدہ کہا جاتا ہے۔ یاسر عرفات نے اس معاہدے کے بعد پاکستان کو پیغام بھیجا کہ یہ ہمارا عالم مجبوری کا فیصلہ ہے اسے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف نہ سمجھا جائے اور براہ مہربانی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بجائے فلسطینی کاز کی حمایت جاری رکھیں۔
فلسطین اور کشمیر کے تنازعات ایک ساتھ شروع ہوئے اور اسرائیل نے فلسطین کو انچوں اور گزوں میں یوں ہضم کیا کہ آج دنیا کے نقشے سے فلسطین کو محدب عدسے سے تلاش کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ 1948میں فلسطین جس رقبے پر مشتمل تھا وہ سکڑتا چلا گیا اور اسرائیل پھیلتا اور وسعت اختیار کر تا رہا۔ یہاں تک کہ اکہتر برس بعد فلسطین ایک نقطہ اور اسرائیل ایک دائرہ ہے۔ دنیا نے اس عمل کا جس ڈھٹائی اور بے رحمی سے نظارہ کیا وہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ کشمیر میں امریکا اور بھارت نے پاکستان کو قدم قدم پر ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ طرز کے جال میں پھنسانے کی کوشش کی۔ امریکا کے شروع کردہ پیس پروسیس اور تمام تجاویز کا مرکزی خیال یہی تھا کہ کشمیر پر ’’اسٹیٹس کو‘‘ معاہدے کی شکل دی جائے۔ وادی کشمیر بھارت کے قبضے میں رہے۔ پاکستان آزادکشمیر اور گلگت پر قناعت کرے اور اللہ اللہ خیر سلا۔ پاکستان کو ترغیب، تحریص اور دھونس سمیت ہر طریقے سے اس مقام تک لانے کی کوشش کی۔ دوبار یعنی نوازشریف اور مشرف کے ادوار میں تو پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے اس حل کو بزور طاقت ناکام بنایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو بھارت کے حوالے کرنے سے انکاری تھا یا ایسے کسی کاغذ پر دستخط کرنے کے دبائو کی مزاحمت کرتا رہا۔ اس حرف انکار کی قیمت پاکستان کو بدترین دہشت گردی کی صورت میں چکانا پڑی۔ پاکستان نے اچھے دنوں کے انتظار میں یہ مشکل وقت کاٹ لیا مگر امن اور ترقی کے نام پر بھارت کے ساتھ ’’کیمپ‘‘ ڈیوڈ طرز کا سمجھوتا کرنے سے صاف انکار کیا۔ جب پاکستان کو کسی معاہدے اور سجھوتے تک لانے میں ناکامی ہوئی توچار وناچار بھارت نے پانچ اگست کا یک طرفہ قدم اُٹھا لیا۔ دو برس سے پاکستان اس فیصلے کی مزاحمت کر رہا ہے۔ مزاحمت کے انداز اور رفتار پر دو رائے ہوسکتی ہیں مگر مزاحمت کے وجود اور حقیقت سے انکار سورج کو اُنگلی کے پیچھے چھپانے کے مترادف ہے۔ جس دن پاکستان وادی کشمیر کو ذہنی اور عملی طور بھارت کے حوالے کرکے مصر کا کردار ادا کرے گا اس دن اس ملک کی آئیڈیولوجی اور جغرافیہ دونوں اپنا جواز کھودیں گے۔