ایران میں ’مرگ بر خامنہ ای‘ کے نعرے؟

385

ایران میں ہنگامے عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق مظاہروں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایران کے صوبے خوزستان سے شروع ہونے والے مظاہرے تہران تک پھیل گئے ہیں، ایران کے دارالحکومت تہران میں مظاہرین نے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف بھی سخت نعرے بازی کی ہے۔ احتجاجی ریلیوں میں مظاہرین نے ایران کی خارجہ پالیسی کی مخالفت میں بھی نعرے بازی کی ہے۔ ایران کے صوبہ خوزستان میں گزشتہ ہفتے پانی کی کمی پر شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے دارالحکومت تہران تک پھیل گئے ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق مظاہرین نے ایران کے رہبر ِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف بھی سخت نعرے بازی کی ہے۔ نیٹ بلاکس تنظیم جو دنیا میں انٹرنیٹ کی آزادی پر نظر رکھتی ہے نے 23جولائی کو اہواز میں انٹرنیٹ سروس تقریباً مکمل طور پر بند کیے جانے کی صدیق کی تھی۔ ادھر ایرانی پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں نے اہواز میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کے خلاف جاری احتجاج کو کچلنے کے لیے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی پولیس نے صوبہ اہواز کے کئی اضلاع میں چھاپوں کے دوران دسیوں مظاہرین کو حراست میں لینے کے بعد انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ مظاہرین ’مرگ برآمر‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔
ایرانی کی سرکاری خبروں کے مطابق تہران کے نائب گورنر، حامد رضا گدرزی نے جمہوری اسٹریٹ پر ہونے والی ریلی کے بارے میں مقامی میڈیا کو بتایا ’علا الدین گزرگاہ میں بجلی بحالی کی پریشانی تھی جس کی وجہ سے کچھ عدم اطمینان کا مظاہرہ ہوا‘۔ 24جولائی کو ایران کے شمال مغربی صوبہ مشرقی آذربائیجان کے دارالحکومت تبریز میں بھی خوزستان کے حق میں ریلیاں نکالی گئی تھیں۔ ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے سرکاری بیان میں کہا کہ خوزستان کے وہ ایرانی شہری جو پانی کی کمیابی پر احتجاج کر رہے ہیں، بے قصور ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی کہ جلد از جلد پانی کی فراہمی کا مسئلہ حل کیا جائے۔
ایرانی میڈیا اور خبر رساں ایجنسیوں سے اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا ’لوگوں نے اپنا غصہ، اپنی ناراضی ظاہر کی لیکن ہم ان پر کسی قسم کا الزام نہیں لگا سکتے، یہ مسائل جلد حل ہونے چاہئیں۔ اب، الحمدللہ، تمام سرکاری اور غیرسرکاری ذرائع اس کوشش میں ہیں کہ پانی کی فراہمی کا یہ مسئلہ جلد از جلد حل کیا جا سکے‘۔ آیت اللہ خامنہ ای کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے میں ان کی سابق سفارشات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ علی خامنہ ای نے اپنی مختصر تقریر میں خوزستان کے مختلف شہروں میں عوام پر حکومتی دستوں کی طرف سے براہ راست فائرنگ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی مظاہرین کے قتل کی مذمت کی جس کی وجہ سے خراسان کے ہنگاموں میں اضافہ ہوا اس کا مطلب یہ ہے ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای بھی مظاہرین کے خلاف پولیس اور سیکورٹی کی کارروائی کے مکمل طور سے حامی ہیں۔ ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای اس احتجاج کو ’فسادات‘ کہتے رہے ہیں اور عالمی دباؤ میں اضافہ کے بعد انہوں نے اپنے بیان میں تبدیلی کرتے ہوئے مظاہرین سے ہمدردی کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس ایرانی کریک ڈاؤن میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں سے ایک پولیس افسر ہے۔ عرب نیوز کے مطابق مذکورہ پولیس افسر کو ساحلی شہر ’ماہ شہر‘ میں مارا گیا تھا، عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران پر خوزستان مظاہرین کی جانب سے علٰیحدگی پسندی کے اہم مطالبات کو نظرانداز کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے ایرانی حکومت احتجاجی مظاہرین کے لیے بلوائی یا فسادی کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔ عالمی اخبارات کو موصول ہونے والی خبروں کے مطابق اہواز، حمیدیہ، ایذہ، ماہ شہر، شدگان اور سوسنگرد میں احتجاج زوروں پر ہے، سیکورٹی فورسز مظاہرین کو پرتشدد طریقے سے منتشر کررہی ہیں۔
خوزستان میں بڑی تعداد میں عرب سنی اقلیت موجود ہے جو اکثر اپنی پسماندگی اور بدحالی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ 2019ء میں یہ صوبہ حکومت مخالف مظاہروں کا ایک مرکز تھا جس نے ایران کے دوسرے علاقوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران گرمی کی شدت اور ریت کے طوفانوں نے خوزستان کے زرخیز میدانی علاقوں کو بالکل خشک کردیا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی نے قحط کو بڑھاوا دیا ہے۔ صدر نے رواں ماہ کہا تھا کہ ایران ایک ’بے مثل‘ خشک سالی سے گزر رہا ہے، پچھلے سال کے مقابلہ میں اوسط بارش 52 فی صد کم ہے۔ پانی کے حوالے سے ان پریشانیوں نے ایران میں مشتعل مظاہرین کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایران میں حقوق انسانی کارکنوں کے مطابق ’چونکہ خوزستان میں تقریباً پانچ ملین ایرانی پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم ہیں اس لیے ایران شہریوں تک پانی کی رسائی کے بنیادی انسانی حق کے احترام، تحفظ اور اس کی تکمیل میں ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے باور کرایا ہے کہ ایرانی سیکورٹی فورسز نے خوزستان صوبے کے مختلف علاقوں میں پر امن مظاہروں کو کچلنے کے لیے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ تنظیم کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے خود کار اسلحے، شاٹ گنوں اور آنسو گیس کا براہ راست استعمال ہوا۔ ایمنیسٹی نے ایرانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خود کار ہتھیاروں اور مشین گنوں کا استعمال فوری طور پر روک دے اور تمام گرفتار شدگان کو رہا کرے۔ تنظیم کے مطابق ایرانی حکام عوام کے خلاف غیر قانونی مہلک طاقت استعمال کرنے کا خوف ناک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ خوزستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس نے نومبر 2019ء کے واقعات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایرانی ’مرگ بر خامنہ ای‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔