ـ5 اگست، مسئلہ کشمیر اور ہمارے رویے

384

آج سے دو برس قبل 5 اگست 2019ء کو جن سنگھی فکر کی وارث بھارت کی بی جے پی حکومت نے عالمی قوتوں کی شہ پر دستورِ ہند کی دفعات 370 اور 35 اے میں ترمیم کرکے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی اہمیت کا خاتمہ کردیا تھا۔ دستورِ ہند کی دفعات اس بات کی علامت تھیں کہ جموں و کشمیر متنازع علاقہ ہے، جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیری باشندے اپنے حق خودارادیت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے۔ اس اعتبار سے کشمیر کا مسئلہ تقسیم ِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ اور بھارت کی حکومت کے درمیان معاہدے کے باوجود بھارت کی ہر حکومت کشمیر کو ناجائز طور پر اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی ہٹ دھرمی پر قائم ہے، جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ایک خواب بن گیا ہے۔ بھارت کی فاشسٹ حکومت کے اس ظالمانہ اور ناجائز اقدام کے بعد سے مقبوضہ کشمیر بھارتی فوج کے محاصرے میں ہے، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان شہری کرفیو اور سخت لاک ڈائون کی کیفیت میں گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کشمیری مسلمان کی تحریک 1948ء سے جاری ہے۔ کشمیر کے مسلمانوں نے آج تک بھارت کی غلامی قبول نہیں کی۔ اس درمیان میں بہت سے اُتار چڑھائو آئے، سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے نے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی طرح کشمیر کے مسلمانوں کو بھی غم انگیز صدمے میں مبتلا کیا، لیکن کشمیری مسلمانوں نے آزادی کے عزم سے دستبرداری اختیار نہیں کی اور ہر قسم کی قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے مراحل بھی آئے کہ بظاہر ایسا محسوس ہوا کہ کشمیر کی تحریک آزادی سست پکڑ گئی ہے، لیکن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے جس کے بعد تحریک میں تیزی آجاتی ہے۔ کشمیر کو ایسے رہنما بھی ملتے رہے ہیں جو عزم وہمت کا پیکر بن کر سامنے آتے ہیں جن میں عہد حاضر کی تحریک آزادی میں سید علی گیلانی، یٰسین ملک اور شبیر شاہ جیسے اساطین شامل ہیں۔ 5 اگست 2019ء کے ظالمانہ اقدام نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی قیادت کو بھی بھارت کی حکومت سے دور کردیا ہے۔ اس اقدام کے بعد دنیا کو بھی یہ معلوم ہوگیا ہے کہ جس بھارت کو وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتے ہیں وہ مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو جمہوری حق دینے پر تیار نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت اور فوج کی جانب سے جو مظالم کیے جارہے ہیں ان کے خلاف آوازیں آنی شروع ہوگئی ہیں۔ بھارت سب سے بڑی جمہوریت نہیں بلکہ سب سے بڑی فاشسٹ ریاست ہے۔ وہ صرف مقبوضہ کشمیر ہی پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھ کر انسانی حقوق کی پامالی کا مجرم ہی نہیں ہے، ساتھ ہی ملک کی اقلیتیں بھی محفوظ نہیں ہیں، مسلم کش فسادات تو 1946ء کے بعد سے معمول بن گئے ہیں۔ شہریت کے قانون میں متنازع تبدیلی اور اس کے خلاف سیاسی تحریک بھارت کے فاشسٹ طرز حکمرانی کی ایک علامت ہے، جو ملک مذہب ذات پات کی تقسیم کی بنیاد پر کروڑوں انسانوں کو اچھوت قرار دے سکتا ہے اسے سب سے بڑی جمہوریت قرار دینا عالمی ضمیر کی دورنگی اور منافقت ہی کہا جاسکتا ہے۔ کشمیر کی صورت حال یہ ہے کہ ہر روز نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، آزادی کا مطالبہ کرنے کے جرم میں بے گناہوں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ناقابل برداشت تشدد کیا جاتا ہے، اذیت پہنچانے کے سفاک طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کے گھروں کو مجاہدین کی پناہ گاہ قرار دے کر نذر آتش کردینا بھی معمول ہے۔ اس عرصے میں ہزاروں عفت ماب مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت پامال کی جاچکی ہے۔ ان مظالم کے باوجود جذبہ حریت و آزادی سے سرشار کشمیری مسلمان بھارتی تسلط کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ جب کشمیر میں یہ نعرہ لگتا ہے کہ لے کے رہیں گے آزادی تو اس سے مراد صرف اور صرف الحاق پاکستان ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ماضی کے 70 برس میں کئی مراحل ایسے آئے کہ محسوس ہونے لگا کہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق چند دنوں کی بات رہ گئی ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں نے عالمی طاقتوں کے فریب میں آکر ایسے موقعوں کو گنوادیا۔ 5 اگست 2019ء کے بعد سے بھارت کی حکومت جو کچھ کررہی ہے اس کے بعد حکومت پاکستان کا فرض یہ بنتا ہے کہ قومی پالیسی کا مرکزی نکتہ کشمیر کو بنادیا جائے۔ ہر ملک کے سفارت خانے میں کشمیر کی ڈیسک قائم کی جائے، کشمیر کے موضوع پر ایمبسڈر ایٹ لارج کا تقرر کیا جائے تاکہ دنیا کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے بھی کشمیری مسلمانوں کے مصائب سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں ایک اچھی تقریر ضرور کی لیکن سفارتی سطح پر بھرپور سرگرمی کا فقدان نظر آیا۔ حکومت پاکستان نے عوام کے دبائو پر بھارت سے مذاکرات سے ضرور انکار کیا ہوا ہے، لیکن پس پردہ ایسے اشارے مل رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے بھی کشمیر کا سودا کرلیا ہے۔ ایسی سازشوں کی بازگشت شملہ معاہدے کے بعد ہی سے نظر آنے لگی ہے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ کشمیر کے سفیر ہیں، لیکن ان کی حکومت کشمیر کمیٹی کو بھی فعال نہیں کرسکی۔ امور کشمیر کا وزیر ایک ایسے شخص کو مقرر کیا گیا ہے اسی سے حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 5 اگست 2019ء کے متنازع اقدام کے بعد بھارت کی مودی حکومت داخلی اور خارجی طور پر دبائو میں آتی محسوس ہوئی اور جس کا مظہر آل پارٹی کانفرنس کا انعقاد بھی ہے۔ اس مرحلے پر بھی ہماری طرف سے کوئی مناسب اقدام نظر نہیں آیا۔ ایک طرف حکومت کا رویہ ہے، تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ آزاد کشمیر کے انتخابات ابھی چند دنوں پہلے منعقد ہوئے ہیں جس میں ہر سیاسی جماعت کی قیادت گئی ہے جو سابق اور موجودہ حکمرانوں پر مشتمل ہے، لیکن آزاد کشمیر کے انتخابات کو پاکستانی سیاسی گند پھیلانے کا ذریعہ بنایا گیا۔ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم اور اس میں سیاسی قیادت کی تقریروں نے مقبوضہ کشمیر میں غلط پیغام پہنچایا ہے۔ صرف یہی نہیں ماضی قریب میں ہونے والی سرگرمیوں اور عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو اشارے مل رہے تھے وہ بہت تشویش ناک ہیں، یہاں تک کہ تحریک آزادی کشمیر کے بزرگ، ضعیف اور بیمار مگر جواں ہمت قائد سید علی گیلانی کو 22 مارچ 2021ء کو سری نگر سے پاکستان کے حکمرانوں کے نام ایک انتباہی بیان جاری کرنا پڑ گیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’حالیہ دنوں میں عالمی سیاست میں رونما ہونے والی کچھ تبدیلیوں سے اس بات کا صاف عندیہ ملتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے، جس کے بارے میں کشمیری عوام کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ اس تعلق سے ہماری حمایت اور ہم نوائی کا دم بھرنے والے ہمارے کچھ ہمدردوں کا کردار بھی شکوک و شبہات سے گھرا ہوا ہے‘‘۔ اس پیغام اور انتباہ پر ہمارے قائدین نے کتنی توجہ دی ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے۔ اس سلسلے میں گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی علانیہ اور خفیہ کوشش جاری ہیں۔ 5 اگست 2019ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کے آبادی کے تناسب کو بگاڑنے اور تبدیل کرنے کی کوشش بھی جاری ہیں۔ بھارت کے کسی عمل کی مزاحمت کی کوشش پاکستان کے حکمرانوں کی سطح پر نظر نہیں آئی۔ قوم کو حکمرانوں کو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے مصائب سے ہمت پکڑنی چاہیے۔