ایک اورزینب کا قتل

418

آج انسانیت پھر شرمسار ہوگئی، درندگی کا ایک بار پھر رقص ہوا۔ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے لیکن یہاں انسانوں کی دنیا میں تو حیوانیت کو بھی مات دے دی ہے۔ ابھی معصوم زینب کا غم ہلکا نہیں ہوا کہ ظالم درندوں نے کورنگی کی چھ سالہ معصوم بچی ماہم کو اغوا کر کے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور جان سے مار ڈالا۔ ماہم کی موت ہونے پر ظالم درندے نے اس کی لاش کچرا کنڈی میں پھینک دی۔ معصوم ماہم کا غریب والد، اس کے اہل خانہ اور محلے والے معصوم ماہم کو ڈھونڈتے رہے اور جب معصوم ماہم کی لاش کچرا کنڈی سے ملی تو اس کے گھر میں ایک کہرام مچ گیا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد اس بات کی بھی تصدیق ہوئی کہ معصوم بچی کو ظالم درندے نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور اس کا گلہ گھونٹا اور گردن کی ہڈی توڑ دی گئی۔ اہل محلہ کا کہنا ہے کہ ماہم کے اغوا پر زمان ٹائون تھانہ میں بچی کی گمشدگی کی اطلاع دینے کے لیے جب گھر والے تھانے گئے تو ڈیوٹی پر موجود آفیسر نے نہ گمشدگی کی رپورٹ درج کی اور نہ ہی بچی کی تلاش میں کوئی عملی مدد کی۔ بچی کی لاش ملنے پر جماعت اسلامی پبلک ایڈ کمیٹی کے مقامی ذمے داران نے بھی بچی کے والد سے ملاقات کی اور انہیں اپنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی،کورنگی ٹائون کے سابق ناظم اور امیر ضلع عبدالجمیل خان نے بھی علاقے کا دورہ کیا۔ علاقے میں خوف اور دہشت کی فضا تھی۔ عبدالجمیل خان نے اہل محلہ اور ماہم کے والد کو تسلی دی اور اس سفاکانہ قتل پر تعذیت کا اظہار کرتے ہوئے کہ جماعت اسلامی اس ظلم اور درندگی پر آپ ساتھ ہے اور معصوم بچی کے قتل عام پر بھرپور طریقے سے احتجاج کیا جائے گا۔ اخبارات، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر ماہم کے سفاکانہ قتل پر چیخ اٹھے اور سخت احتجاج کیا گیا اور اسے امن وامان کی بدترین صورتحال قرار دیا۔
گورنر سندھ نے بھی کورنگی میں ماہم کے گھر جا کر اس کے والد سے تعذیت کا اظہار کیا اور حکومت کی جانب سے قاتلوں کو جلد گرفتار کیے جانے کی یقین دہانی بھی کروائی۔ محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام بھی حرکت میں آئے اور زمان ٹائون تھانے کے ایس ایچ او اور ڈیوٹی آفیسر کو فوری طور پر برطرف کر دیا گیا۔ پولیس نے فوری تفتیش کرتے ہوئے سہراب گوٹھ سے ملزم ذاکر عرف انڈولہ کو گرفتار کیا جو مقتولہ ماہم کی گلی ہی میں رہتا تھا۔ تفتیش کے دوران ملزم نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر شیطان غالب آگیا تھا۔ رات ساڑے گیارہ بجے کے قریب میں نے بچی کو اپنے رکشے میں بٹھایا اور اسے ایک گھنٹہ تک رکشہ میں گھماتا رہا۔ رات ساڑے بارہ بجے کے قریب اتوار بازار گراونڈ میں رکشہ کے اندر بچی کے ساتھ زیادتی کی۔ زیادتی کے بعد بچی زندہ تھی لیکن رکشہ سے بھاگتے ہوئے وہ گر گئی تھی اور اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی میں نے ایک کپڑے میں اس کی لاش کو لپیٹ کر کچرا کنڈی میں پھینک دیا اور میں گھر والوں کے ہمراہ سہراب گوٹھ سے ملتان فرار ہورہا تھا کہ پولیس نے دھر لیا۔
ماہم کے ساتھ ہونے والی درندگی کا واقعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل معصوم زینب کا بھی وحشیانہ قتل ہوا تھا۔ پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی تھی۔ اس وقت وفاقی حکومت نے چھوٹے اور معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف قانون سازی کا فیصلہ کیا اور زینب الرٹ کے نام سے قانون سازی بھی کی گئی لیکن بدقسمتی سے اس قانون کو عملی طور پر نافذ نہیںکیا گیا جس کی بناء اس طرح کے سفاک درندوںکو حوصلہ ملا اور درندگی کے واقعات میں اب مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ معصوم بچی زینب کے بعد ایک اور چھ سالہ معصوم بچی ماہم کے ساتھ اسی طرح کی درندگی نے ہم سب کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اس طرح کے واقعات میں ملوث مجرموں کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔ ملک میں جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے حکومت ودیگر قانوں نافذ کرنے والے ادارے بڑے متحرک ہوجاتے لیکن جیسے ہی معاملہ ٹھنڈا ہوتا ہے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے وہ ادارے بھی ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا زینب کے بعد ماہم کا قتل ریاست مدینہ کے حکمرانوں کے ذمے ہی ہے۔ قیامت کے دن معصوم زینب اور ماہم ان حکمرانوں کا گریبان پکڑیں گی۔
ان وحشیانہ واقعات کے مجرم انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قانون پر عمل کرے اور قاتلوں کو سرے عام پھانسیاں دی جائیں۔ اس قبل بھی ملک کے دیگر علاقوں میں درندگی کے دیگر واقعات بھی رونما ہوئے اور ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کی حیوانیت اور درندگی نے سب کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ معصوم ماہم کے والدین حکمرانوں سے سوال کر رہے ہیں کہ ان کی معصوم بچی کے اغوا، زیادتی اور قتل کے ذمے دار کون لوگ ہیں؟ ماہم کے اہل خانہ نے تو تھانے جا کر رپورٹ درج کروانے کی کوشش کی مگر محکمہ پولیس میں بیٹھی کالی بھیڑوں نے ماہم کی گمشدگی پر کوئی مدد فراہم کرنے اور بچی کو تلاش کرنے کے بجائے ماہم کی گمشدگی کی بھی رپورٹ درج نہ کر کے ثابت کردیا کہ قانون کہ یہ محافظ صرف نوٹ بنانے اور عوام کو بے جا تنگ وپریشان کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کر رہے ہیں۔ ایسے ظالم اور سفاک پولیس اہلکاروں کو تو فوری طور پر فارغ کردینا چاہیے۔ کراچی میں کورونا ایس او پیز کے نام پر محکمہ پولیس نے جو لوٹ مار شروع کی ہوئی ہے وہ سب سامنے ہے۔ کورونا لاک ڈائون کے نام پرصرف غریب اور پریشان حال لوگوں کو بے جا تنگ اور پریشان کیا جارہا ہے۔ جس سے عوام میں پولیس کے خلاف نفرت پیدا ہورہی ہے اوراس کا فوری نوٹس لیا جائے۔ کورونا ایس او پیز پر اتنی سختی اور سخت قسم کا لاک ڈائون اور پھر یکم محرم سے تمام ایس او پیز اور لاک ڈائون کا خاتمہ فرقہ واریت اور نفرت پھیلانے کی سازش ہے اور جو قوتیں اس ملک میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکاتی ہیں اور اسے ہوا دیتی ہیں انہیں بھی خوب موقع ملے گا کہ وہ عوام کے جذبات کو بھڑکائیں لیکن ان شاء اللہ اب امت مسلمہ اپنے دوست اور دشمن کو خوب پہچان چکے ہیں اور فرقہ واریت کے نام پر اب اس ملک میںکوئی لڑائی نہیں ہوگی اور اتحادبین المسلمین کے ذریعے امت کو متحد کر عالمی استعماری قوتوں کی ہرسازش کو ناکام بنایا جائے گا۔