کورونا کا مسلسل رونا!

615

کورونا کا رونا یہ ہے کہ حکومتوں کی اس حوالے سے غیر شفاف پالیسی اور کورونا کی وباء کی حیثیت کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات نہ دینا اور لوگوں کے اذہان میں یہ ابھر کر ان کو نفسیاتی اور دیگر امراض میں مبتلا کرنا ہے۔
کورونا دنیا بھر میں 2019 میں سامنے آیا اور چھا گیا۔ کہا گیا تھا یہ ایک وائرس ہے اس سے شدید بخار جسم میں درد نزلہ زکام اور کھانسی کی شدت ہو سکتی ہے۔ ساتھ یہ بھی تاثر دیا گیا کہ یہ تیزی سے پھیلنے والا لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والا وائرس ہے۔ اس لیے لوگوں کو غیر معمولی احتیاط کرنی چاہیے، گھروں سے بلا ضرورت نہیں نکلنا چاہیے۔ کہا گیا تھا یہ اس وائرس کی لپیٹ میں آنے والے وہ افراد جو اپنے علاج کی طرف توجہ نہیں دیں گے وہ جاں بحق بھی ہو سکتے ہیں، مگر اس کا کوئی علاج بھی نہیں ہے بس اس سے دوسروں کو محفوظ رکھنا ہے۔ اس تاثر کو یا خدشات کو میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں باربار لاک ڈاؤن جیسی اصطلاح کے ساتھ کاروبار بلکہ معمولات زندگی کو محدود کر دیا گیا۔ روز مرہ کے امور معطل کر دیے گئے، ساتھ ہی اسپتالوں کے پورے نظام کو کورونا کورونا کا شور کرتے ہوئے صرف کورونا کے امراض کے لیے محدود کردیا گیا۔ گو کہ کورونا کا اس قدر شور مچایا گیا کہ گھروں کے اندر اپنے آپ کو مقید کرنے والے بھی کورونا کے سوا کچھ اور سوچنے و سمجھنے سے قاصر ہوگئے۔
پہلے کورونا وائرس کا شور کیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے اور پھر اچانک ہی اس سے بچاؤ کی ویکسین کو متعارف کروا دیا گیا۔ ویکسین کے بارے میں بھی برطانیہ سمیت کئی ممالک نے تحفظات ظاہر کیے گئے مگر پھر بھی سے جہاں تک پھیلایا جا سکتا تھا پہنچا دیا گیا۔ ویکسین بنانے والوں میں مائکروسافٹ کے نامور بل گیٹس کا نام آیا تو لوگ یہ پوچھنے پر مجبور ہوگئے یہ ویکسین ہے یا ٹیکنالوجی اور کیا ویکسین کورونا کی دوائی ہے؟ اس سے کیا کوئی کورونا کا شکار نہیں ہوگا؟ مضحکہ خیز جواب ملاکہ ہو بھی سکتا ہے مگر اس کی شدت کم ہوگی۔ ان سوالات کے ایسے جواب کے باوجود اس ویکسین کو پاکستان پہنچا دیا گیا، بغیر اس کے سائیڈ افیکٹ کی وضاحت کیے اور اس میں شامل کیے گئے اجزاء کی تفصیلات بتائے بغیر اسے ہر ایک کو لگانے کے لیے دباؤ ڈالنے کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ملک میں تیار کی جانے والی ویکسین کو نظرانداز کرکے چائنا اور برطانیہ کی تیار کردہ ویکسین لگانے کی مہم بھی شروع کی گئی۔
کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کے ساتھ کورونا کی چوتھی لہر کی آمد کا شوشا بھی چھوڑ دیا گیا، دلچسپ امر یہ کہ چوتھی لہر کی اطلاعات کسی سائنسدان ماہر طب نے نہیں دی بلکہ پاکستانی حکمرانوں نے اس کے خدشات کا اظہار کیا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 8 جولائی کو اس وائرس کی چوتھی لہر آنے کی اطلاع سامنے آئی، اسلام آباد میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اظہار ساتھ کے یہ بھی کہا تھا کہ ملک میں کورونا کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اب یہ محض اتفاق ہے یا کچھ اورکہ وزیراعظم کے خدشات اظہار کے بعد 17 جولائی کو برطانیہ سے اسٹرا زنیکا ویکسین کی آخری کھیپ پاکستان پہنچتی ہے تو اس کے ساتھ ہی ملک میں کورونا کیسز میں اضافہ بھی شروع ہوجاتا ہے ساتھ ہی سندھ حکومت وفاقی حکومت کے تحفظات کے باوجود یکم اگست سے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کردیتی ہے۔ سندھ گورنمنٹ کا لاک ڈاؤن پر عمل درآمد دیگر قوانین کی طرح صرف کراچی ہی کی حد تک عمل درآمد نظر آتا ہے۔ جبکہ لوگ حکومت سندھ سے سوال کا حق رکھتے ہیں کہ کیا اس لاک ڈاون سے کوئی عوام کو فائدہ بھی ہوگا یا نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ کس نے بتایا ہے کہ وائرس کی شدت اس قدر خطرناک ہونے کے باوجود آٹھ دن میں کیسے ختم ہوجائے گی؟ اور ختم نہیں ہوئی تو آٹھ اگست کو لاک ڈاون کیوں ختم کیا جارہا ہے؟ حالانکہ 8 اگست سے ماہ محرم الحرام، شروع ہو رہا ہے، کیا لاک ڈاؤن ختم ہونے سے ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچ سکتا؟ یا جان بوجھ کر انہیں کورونا کی خطرناک وباء کے حوالے کیا جارہا ہے یا پھر اور کوئی بات ہے؟
کورونا ایک وائرس ہے اس وائرس کو جاننے، سمجھنے اور اس سے محفوظ رہنے کی تدبیریں وائرولوجسٹ ہی بتاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نہ تو وائرولوجسٹ ہے اور نہ ہی اس وائرس کو سمجھنے اور جاننے والے کوئی ماہر۔
2019 میں جب عالمی سطح پر اس وائرس کا علم ہوا تو حکومت پاکستان نے نیشنل وائرولوجی انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا پھر جامعہ کراچی میں اس کے دفاتر اور لیبارٹریز کے لیے عمارت بنائی گئی اور اس کو ضروری فرنیچر سے آراستہ کیا گیا مگر تاحال اسے فعال نہیں کیا جاسکا حالانکہ عالمی اداروں نے ملک کو کورونا سے نمٹنے کے لیے اربوں ڈالر کے فنڈز سے بھی نوازا ہے۔