پاکستان کو پیچھے نہیں آگے لے جائیں

1408

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو60 کی دہائی میں لے جانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں ۔انہوں نے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ روٹی کپڑا اور مکان کی باتوں پر کبھی عمل نہیں کیا گیا ۔ کراچی کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ کچی آبادی بن چکا ہے ۔ ایسا کام کر رہے ہیں جو ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان ایٹم بم بنا سکتا ہے تو چھوٹی موٹی چیزیں کیوں نہیں بنا سکتا ۔ انہوں نے بھی روٹی کپڑا مکان کی طرح غربت کے خاتمے کا پروگرام وژن پاکستان دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔ ان کے اس اعلان کا کیا بنے گا اس کا تو وقت بتائے گا لیکن اگر وزیر اعظم کے دعوئوں اور ان کے تین سال کے عمل کاجائزہ لیا جائے تو دوسرے الفاظ میں ان کے تمام دعوے درست ہیں ۔ اور یہ دعویٰ تو ہر لحاظ سے درست ہے کہ ایسا کام کر رہے ہیں جو ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ۔ مثال کے طور پر ملکی تاریخ میں کشمیر کا اس طرح سودا کبھی نہیں ہوا جس طرح عمران خان کی حکومت نے کیا ہے ۔ غیر ذمے داری کا مظاہرہ ہوتا رہا ہے ۔ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہوتا رہا ہے لیکن کشمیر میں کسی بھارتی سرگرمیء کا سخت نوٹس لیا جاتا تھا ۔ اور اب وہ ہورہا ہے جو کبھی نہیں ہوا یعنی دو سال قبل نریندر مودی کی حکومت نے اپنے آئین میں تبدیلی کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر دی پاکستان، پاکستانی حکومت نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور اس بے حسی کو دو سال گزر گئے ہیں ۔ کل کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو دو سال ہو جائیں گے ۔عمران خان کی حکومت نے کچھ نہیں کیا ۔ پاکستان میں ڈالر کو108روپے سے170روپے تک پہنچایا جس سے ہر چیز مہنگی ہو گئی ۔ یہ ڈالر اب 160 کے ارد گرد رہتا ہے ۔ عمران حکومت نے پیٹرول کو64روپے سے120روپے تک پہنچا دیا ہے اور یہ واپس نہیں آ رہا بلکہ مزید اوپر جا رہا ہے وزیر اعظم کی جانب سے ملک کو1960 کے عشرے میں لے جانے کی بات ایسی ہے کہ اس پر ان کا احتساب بھی ہونا چاہیے اور بازپرس بھی ہونی چاہیے ۔ دنیا بھر میں حکومتیں اگلے دس بیس سال کے منصوبے بناتی ہیں جن کو آگے والی حکومتیں جاری رکھتی ہیں ۔ وژن2030ء اور وژن2040 تک مختلف ملکوں میں زیر غور اور بروئے کار لائے جا رہے ہیں لیکن وزیر اعظم پاکستان کو60 کی دہائی میں لے جانا چاہتے ہیں ۔60 کی دہائی میں کیا ہوا تھا جو وزیر اعظم اس دور میں لے جانا چاہتے ہیں ۔ در اصل گنتی غلط جگہ سے شروع کی جاتی ہے ۔ بھٹو کے روٹی کپڑا مکان پر تنقید کی جاتی ہے لیکن ایوب خان کے دور پر کوئی تنقید نہیں کی جاتی اسے سنہری دور ظاہر کیا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ60 کے عشرے میں پاکستان نے صنعتی انقلاب برپا کر دیا تھا ۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ پاکستان صنعتی ترقیاتی کار پوریشن1954ء سے کام کر رہی تھی اس کے منصوبوں میں اسٹیل ملز ، ڈیم ، بجلی کے منصوبے ، پیٹرولیم کے منصوبے ، شہروں کی جدت اور عالمی تعمیراتی ماہرین کو پاکستان لانے کے تمام منصوبے شامل تھے ۔ پی آئی ڈی سی اپنے تمام منصوبے سالانہ اخبارات میں مشتہر کرتی اور اگلے سال ان پر عملدرآمد کا جائزہ بھی اخبارات کو دیتی تھی ان سیاسی حکمرانوں کے دور کی ترقی کا سارا سہرا جنرل ایوب نے مارشل لا کے بعد خود اٹھا کر اپنے گلے میں ڈال لیا اور ڈھول پیٹا گیا کہ جنرل ایوب کے دور میں ملک صنعتی ترقی کی راہ پر ڈالا گیا ۔ تنقید تو وہاں سے ہونی چاہیے تھی ۔ جنرل ایوب نے سب سے پہلے امریکا کو اڈے دیے ۔ ان پر تنقید کیوں نہ کی ۔ گندم کے لیے قوم کی تذلیل کرائی تھینک یو امریکا کی تختیاں اونٹوں کے گلے میں لٹکائیں اس کا ذکر بھی کیا جائے ۔ بہر حال جنرل ایوب ملک کو ترقی دی نہ بھٹو نے روٹی کپڑا مکان دیا۔ رہے نواز شریف تو ان کی تین حکومتوں میں ملک کے لیے جو اعلانات کیے گئے ان میں سے کوئی پورا نہیں ہوا ۔ وہ ملک کو ایشیئن ٹائیگر بنانا چاہتے تھے لیکن ملک کو بلی بنا گئے ۔ بے نظیر بھٹو روشن خیالی لائیں لیکن روشن خیالی ہی ختم کر گئیں ۔ وزیر اعظم عمران خان پر دو حکمرانوں دو خاندانوں اور زرداری اور شریفوں کا بھوت اس قدر سوار ہے جس طرح ایک ذہنی مریض کا واقعہ مشہور ہے جو غلیل بنانے اور چڑیاں مارنے کے اعلانات کرتا رہتا ہے ۔ یہ بھی نئی قسم کے ہیں جو ہر مسئلے پر دو خاندانوں نواز شریف اور زرداری کی رٹ لگاتے ہیں ۔ اعلانات تو یہ بھی کر رہے ہیں لیکن ان کے اعلانات بھی تین سال میں کوئی رنگ نہ دکھا سکے ۔ عمران خان دو خاندانوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف کا ذکر نہیں کرتے جنہوں نے کشمیر پر تیسرے آپشن کی بات کی ، سفارتکاروں کوباندھ کر امریکا کے حوالے کیا گیا ۔ پاکستان قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کر دیا گیا ۔ مشرف کے سارے وزیر ان کی کابینہ میں ہیں ۔ عمران خان ملک کو60 کی دہائی میں نہ لے جائیں ۔ آگے لے جانے کی بات کریں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی چیزیں کیوں نہیں بنا سکتے ۔ منصوبے بنانے سے کس نے روکا ہے ۔ پانی اور ہوا سے بجلی کے لیے غیر ملکی امداد نہیں چاہیے۔ شاید اسی لیے ایسے منصوبے نہیں بنائے جاتے ۔ ڈاکٹر قدیر نے ایٹم بم بنایا تھا انہیں تو نگرانی کے نام پر عملاً قید میں رکھا ہوا ہے ۔ ان کو آزاد کریں وہ کوئلے سے بجلی بھی بنا دیں گے ۔ ملک کی صنعتوں کو تباہ کر دیا گیا ہے ۔ پاکستان اسٹیل کو بحال کرنے میں کس نے رکاوٹ ڈالی ہے ۔ پاکستان اسٹیل بحال ہو جائے تو روز گار ، معیشت ، برآمدات سب بڑھ جائیں اور درآمدات کم ہو جائیں ۔ سی پیک کا اتنا کام ہے کہ پاکستان اسٹیل اس کے نتیجے میں مزید بڑی بن جائے گی ۔ لیکن وزیر اعظم اس وژن سے عاری ہیں بلکہ موجودہ پوری حکمراں ٹیم اور پی پی اور ن لیگ بھی اس میں شامل ہے ۔ اگرملک کو پیچھے لے جانا ہے تو اور پیچھے چلیں اور1947ء کے پاکستان میں چلیں جہاں قائد اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں چائے کو منع کر دیا تھا ، کہا تھا کہ وزراء گھر سے چائے پی کر آئیں ۔ وہ رویوں میں ملک کوپیچھے لے جائیں ۔ اور پیچھے لے جائیں بادشاہ ٹو پی سی کر اور قرآن پاک کی کتابت کرکے گزر بسر کرتا تھا۔دو لاکھ میں گزارا نہیں ہوتا کا شکوہ نہیں کرتا تھا ۔اور پیچھے چلیں خلافت راشدہ میں آ جائیں یہ سب لوگ آج کے تمام حکمرانوں سے اس وقت بھی آگے تھے اور آئندہ بھی رہیں گے ۔ وزیر اعظم باتیں بند کر کے کچھ سنجیدہ کام کریں ۔ انہوں نے تو دو خاندانوں سے زیادہ باتیں بنا ڈالی ہیں ۔ ان خاندانوں کا دفاع تو ان کا خاندان کرتا ہے ۔ آپ گئے تو آپ کا دفاع آپ کا کوئی وزیر نہیں کرے گا ۔ یہ دوسری پارٹی میں چلے جائیں گے ۔