عرب بہار!تختوں کو خالی اور قبریں بھر تا جاتاہے

789

ڈی ڈبلیو نیو ز کا کہنا ہے کہ مصر کا سرکاری میڈیا تیونس میں جمہوریت مخالف آواز کو یہ کہہ کر ہوا دیتا رہا ہے کہ صدر قیس سعید نے تیونس کو اسلامی جماعتوں سے بچانے کے لیے ا یسے اقدامات کیے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے حالات خراب ہورہے ہیں۔ مصر تیونس کی النہضہ سیاسی جماعت کو بھی اخوان المسلمین کا ہی ایک حصہ سمجھتا ہے۔سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سعودی سلطنت، ” دامے درمے سخنے تیونس کی بہنوں اور بھائیوں کی سلامتی اور استحکام کے لیے ہر طر ح سے ان کے ساتھ ہے اور رہے گی۔” قطر کی حکومت نے تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات پر زور دیا۔مصر نے سرکاری سطح پر تیونس کی صورت حال کے حوالے سے ابھی تک کوئی پالیسی بیان نہیں دیا ہے۔ سوال یہ ہے عالم عرب کو تیونس میں ہو نے والے ہنگاموں کا خوف کیوں ستائے جارہا ہے۔ اس کی ایک وجہ 2010ء کا عرب اسپرنگ اور صدر بائیڈن ہیں ۔2010ء میں عرب اسپرنگ کے نگراں اُس وقت کے امریکی نائب صدر جو بائیڈن تھے اور اب وہ امریکا کے صدر ہیں ۔ 2010ء میںبھی عرب اسپرنگ کی چنگاری سب سے پہلے تیونس میں ایک نوجوان کی خود کشی سے بھڑکائی گئی تھی اور اس ہنگامے سے پورے عالم عرب میں جمہوریت کا سورج طلوع ہونے کا اشارہ امریکا کی جانب سے دیا جارہا تھا جس سے عالم عرب کے بڑے بڑے حکمرانوں کو زوال ہو ا اور ان کو قتل کیا گیا ۔ اس دوران بہت مشکل سے سعودی عرب ،بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اپنے آپ کو اس مشکل صورتحال سے باہر نکالا۔آج ایک مرتبہ پھر تیونس میں وہی صورتحا ل ہے اور پورے عالم عرب پرلرزہ طاری ہے ۔
اس قدر ہنگامی صورتحال کے باوجودتیونس کے صدر قیس سعید نے 25 جولائی کو ملک کے وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرنے کے بعد کہا تھا کہ اب وہ ملک کے انتظامی اختیارات خود ہی سنبھالیں گے۔ یہ نئی سیاسی معرکہ آرائی حکومت مخالف پر تشدد مظاہروں کے بعد شروع ہوئی تھی۔صدر قیس سعید نے تیونس کی پارلیمان کو بھی آئندہ ایک ماہ تک کے لیے معطل کرنے اور تمام نائبین کے اختیارات کو بھی معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی فوری خطرے کے پیش نظر آئین کی دفعہ 80 کے تحت انہیں ایسے احکامات صادر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔فرانس کے وزیر خارجہ زاں ایئس لا درین نے تیونس کے اپنے ہم منصب عثمان جراندی سے فون پر بات چیت کے دوران کہا، ”قانون کی حکمرانی اور امن و سکون کا قیام بہت اہم ہے۔ تیونس کے جمہوری اداروں کو اس بات کی فوری اجازت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ معمول کے مطابق کام کر سکیں۔ لیکن بیشتر عرب ممالک نے صدر قیس کے اقدام پر نکتہ چینی کیے بغیر تیونس کے عوام کے ساتھ رہنے اور ان کی حمایت کرنے کا دعوی کیا ہے۔
رائٹر سے گفتگو کر تے ہو ئے پارلیمان کے اسپیکر راشد غنوشی نے صدر پر، ”انقلاب اور ملکی آئین کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کیا تھا۔ ” غنوشی کی اعتدال پسند اسلامی جماعت النہضہ نے تیونس کے عوام سے اس ”بغاوت” کے خلاف مظاہرہ کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔صدر نے سرکاری ٹی وی چینل کی سربراہ کو برطرف کرنے کے بعد اپنے ایک حامی کو سربراہ مقرر کر دیا جبکہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے مضبوط آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ دوسر جانب تیونس میں فوج نے سرکاری چینل کے دفتر کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اس سے قبل سکیورٹی فورسز نے الجزیرہ ٹی وی چینل کے مقامی دفتر پر بھی چھاپے کی کارروائی کی تھی۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کا کہنا ہے کہ سرکاری وکلا نے اعلان کیا ہے کہ وہ النہضہ اور دیگر دو سیاسی جماعتوں کی بیرونی فنڈنگ کے بارے میں تفتیش کررہے ہیں۔الجزیرہ ٹی وی چینل کا کہنا ہے کہ فرانس نے بھی مغربی ممالک کے اس مطالبے کو دہرایا ہے کہ تیونس میں سیاسی بحران کو جلد از ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ حزب اختلاف نے صدر پر بغاوت کا الزام عائد کیا ہے جبکہ پریس کی آزادی کے حوالے سے بھی کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ یورپی یونین اور امریکا پہلے ہی صدر قیس سعید سے ملک میں جمہوری اصولوں پر قائم رہنے کی بات کہہ چکے ہیں۔
ماضی قریب کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ دس برس قبل تیونسی شہری محمد بْو عزیزی کی خود سوزی نے ایک زوردار تحریک کو جنم دیا تھا ۔ یہ تحریک تیونس سے نکلتی ہوئی 30کروڑعربی زبان بولنے عوام کی آواز بن گئی اور شمالی افریقااور مشرق وسطیٰ میں پھیل گئی تھی، یہ تحریک ’عرب اسپرنگ‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔عرب بہار کی تحریک کو بنیادی طور پر آزادی اظہار اور جمہوریت پسندی کی تحریک قرار دیا جاتا ہے۔کئی افریقی ملکوں کی حکومتوں کو عرب اسپرنگ جیسی تحریکوں کا خوف لاحق ہے۔ وہ امکانات کی روشنی میں سخت اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی زمبابوے میں حکومت نے ایک سابق رکن پارلیمنٹ اور پانچ دوسرے افراد پر حکومت گرانے کی فردِ جرم عائد کر رکھی ہے۔ ان افراد نے تیونس اور مصر میں احتجاجی تحریکوں کے شرکاء کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔ افریقی حکمرانوں میں ایسے خدشات پائے جاتے ہیں کہ افریقی ملکوں میں بھی شمالی افریقی بیداری کی تحریکوں جیسی صورت حال سامنے آسکتی ہے۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ کئی افریقی ممالک عرب اسپرنگ تحریک کے منفی اثرات کا اب بھی سامنا کر ہے ہیں۔
اسی عوامی تحریک کے نتیجے میں تیونس کے ‘طاقتور‘ آمر زین العابدین علی کو اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑا اور سن 2019 میں وہ سعودی عرب میں رحلت پا گئے تھے۔ وہ تیئیس برس تک تیونس پر حکمران رہے ۔اسی عرب اسپرنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عوامی بیداری نے مصر کے آمر حسنی مبارک کو منصب صدارت سے فارغ کیا۔ یمن کے علی عبداللہ صالح کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لیبیا کے مطلق العنان لیڈر معمر القذافی کی حکمرانی کا سورج بھی غروب ہوا۔ اب بعض عرب ممالک میں خانہ جنگی، بدامنی اور سلامتی کی مخدوش صورتِ حال ہے۔ عالم عرب اور سب صحارا افریقا کے جمہورت مخالف حکمرانوں کو خدشہ ہے کہ اگر’عرب بہار‘ جیسی تحریک شروع ہو گئی توعوام ان کا تخت تختے میں تبدل کر کے خالی قبروں کا پیٹ بھرنا شروع کر دیں گے۔کیو ں کہ “عرب بہار!تختوں کو خالی اور قبریں بھرتی جاتی ہے۔