معاشی دلدل

285

حکومت سندھ نے لاک ڈائون کیا لگایا اسلام آباد کو آباد کرنے والے ناشاد ہو گئے اور لاگ لپیٹ سمیت سندھ حکومت کے فیصلے کو سیاسی بیانات میں لپیٹ رہے ہیں، وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ جب معیشت اوپر جارہی ہے تو سندھ حکومت معیشت کی ٹانگیں کھینچ رہی ہے،مگر ہم حکومت سندھ کو من مانی نہیں کرنے دیں گے، عوام چلا رہے ہیں،در انصاف کے دروازے پیٹ رہے ہیں کہ معیشت اتنی اوپر جاچکی ہے کہ عوام کی قوت خرید زمین بوس ہو چکی ہے خدا جانے حکومت کے ذہن میں اور اس کی لغت میں معیشت کے کیا معانی ہیں ہم سے بارہا ذریعہ معاش کے بارے میں پوچھا گیا تو ہم نے یہی کہا کہ ہمارا ذریعہ معاش کالم نگاری ہے کسی بدمعاش سے کوئی ذریعہ معاش نہیں پوچھتا ،کیونکہ علاقہ کا ہر شخص جانتا ہے کہ اس کا ذریعہ معاش بدمعاشی ہے یعنی غلط طریقے سے اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرتا ہے گویا معاش کا مطلب روزمرہ کی ضروریات کی تکمیل کیلئے باروزگار ہونا ضروری ہے، حضرت ذوق نے کہا تھا کہ (دل کی معاش اسے غم کی تلاش ہے)(ڈرتا ہوں میں دل سے کہ بڑا بدمعاش ہے) جاگیر دار کو معاش دار بھی کہا جاتا ہے،معیشت معاش سے یا عیش سے مشتق ہے، معیشت کے معانی زندگی اور روزگار ہیں، گویا حکمران طبقہ معیشت کو دیدہ دانستہ اوپر لے جارہاہے تاکہ عوام کی قوت خرید کو زمین پر پٹخ دے حکمران معیشت کو آسمان پر پہنچا دیں گے تو زمین کے باسی عوام کیا کریں گے ۔
معیشت کے ایک معانی عیش کے بھی ہیں اور حکمران طبقہ کے ذہن اور لغت میں معیشت کے معانی ہی عیش ہیں۔ سو، ان کی نظر میں معیشت عیش کا ذریعہ ہے، حکمران طبقے کے عیش میں کمی آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ملکی معیشت تباہ ہو گئی، امیر جماعت سراج الحق کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کی تباہی کی ایک بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ معاشی معاملات میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک مداخلت کرتا ہے، حکومت کی خارجہ اور داخلی پالیسی بڑی طاقتوں کے تابع ہیں، حتیٰ کہ عوام کو سہولیات اور مراعات کی فراہمی بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ہدایت پر دی جاتی ہیں کسی بھی ملک کی معیشت عوام کی معاشی صورتحال سے مشروط ہوتی ہے، عوام تہی دست ہوں تو حکومت بیرونی طاقتوں کی دست نگر ہو جاتی ہے، جن کا مقصد پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا ہوتا ہے، عوام خوش ہوں تو ملک بھی خوشحال ہوتا ہے، گویا کسی ملک کی خوشحالی عوام کی خوشحالی سے مشروط ہوتی ہے، ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا سونامی ہو تو عوام کی خوشحالی خس وخاشاک کی مانند بہہ جاتی ہے،المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہے، حکومت لاکھ عوام کی فلاح و بہبود کی منصوبہ بندی کریں جب تک بااثر قوتیں اس کی اجازت نہیں دیں گی حکومت اس پر عمل نہیں کر سکتی ، حتیٰ کہ حکومت بجلی گیس اور دیگر مدوں میں عوام کو سبسڈی دینے کیلئے بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی محتاج ہو تی ہے خدا جانے یہ سبسڈی کی لعنت کہاں سے آئی ہے ، صدر ایوب خان کے دور میں جب گندم 14روپے فی من تھی تو اسی قیمت پر گلگت اور بلتستان میں بھی عوام کو مہیا کی جاتی تھی، حالانکہ اس وقت شاہراہِ قراقرم کی تعمیر نہیں ہوئی تھی اور جیپوں پر سامان کی لوڈنگ بہت مہنگی تھی، حکومت لوڈنگ کا خرچ خود برداشت کرتی تھی مگر سبسڈی کا احسان نہیں کرتی تھی۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے درست کہا ہے کہ جب تک عوام کے حقیقی نمائندے برسر اقتدار نہیں آئیں گے ملک سے غربت اور افلاس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ درآمد ہدایات عوام کی کوشحالی کیلئے نہیں ہوتیں ۔آئی ایم ایف کی پالیسیاں اپنا قرض سود در سود سمیت وصول کیلئے ہوتی ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے حاشیہ بردار پاکستانی عوام کی خوشحالی کیلئے کیسے اور کیوں کام کریں گے۔ وزارت خزانہ کا قلمدان لے کر وہ آزار بن تو نہیں ڈالیں گے بلکہ اس قلم سے ہماری بربادی رقم کریں گے، کہ یہی ذمہ داری ان کو سونپی جاتی ہے، ملک کی خود مختا ری اور عوام کی خوشحالی کا تعلق عوام کے منتخب نمائندوں سے مشروط ہوتا ہے، المیہ یہ بھی ہے کہ جمہوریت اورانتخابات رسمی کارروائی بن گئے ہیں جمہوریت میں عوام کا کردار ووٹ ڈالنے کی حد تک محدود ہو گیا ہے ۔ تحریک انصاف کی کمزور خارجہ پالیسی نے پاکستان کو اقوام عالم نے سیاسی دائرے سے خارج کردیا ہے یوں پاکستان اقوام عالم میں سیاسی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے، اس معاملے میں پاکستان ہی نہیں پوری امت مسلمہ تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہی ہے، خدا جانے حکمران طبقہ کی سمجھ میں یہ بات کب آئے گی کہ ملکی معیشت میں بہتری کیلئے ملک میں استحکام ضروری ہوتا ہے جب تک وزیر اعظم عمران خان مہنگائی اور بے روزگاری کے سونامی کے سامنے بند نہیں باندھیں گے ملکی معیشت اور عوام کی معاشی حالت افلاس کی دلدل میں پھنسی رہے گی اور المیہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم مہنگائی اور بے روزگاری کے سونامی خود لائے ہیں، جسے مافیاز نے ہائی جیک کر لیا ہے،اس صورتحال میں معیشت کیسے اور کیوں اوپر جاسکتی ہے اوپر جانے کیلئے قوت پرواز کی ضرورت ہوتی ہے،اور ہماری ضروریات کا تعین آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کرتی ہے۔ خود مختیار مشروط ہو تو زندگی غلامی سے بدتر بن جاتی ہے۔