عمران خان5اگست کو کنٹرول لائن پہنچیں

524

بھارت نے کشمیریوں پر سرکاری نوکری اور پاسپورٹ کے اجراء پر پابندی لگا دی ، تحریک آزادی ، سیاسی تنظیم سے وابستگی ،پتھر بازی اور دیگر کارروائیوں( ان کو جرائم لکھا گیا ہے ) میں ملوث افراد کسی سرکاری ملازمت کے اہل نہیں ہوں گے ۔ ایسے لوگوں کو کوئی کلیئرنس نہیں ملے گی ۔ حریت قیادت کو دو سال قبل کے واقعات اچھی طرح یاد ہیں اس لیے اس نے5اگست کو مکمل ہڑتال اور یوم سیاہ کا اعلان کر دیا ہے ۔ کشمیر کے واقعات کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ اب پاکستان اور کشمیر دونوں ہی جگہ جبر کا انداز اختیار کر لیا گیا ہے۔ پاکستانیوں کو جبری کورونا پابندیوں پر عمل کے لیے کہا جا رہا ہے ۔موبائل سم ،ملازمت ،تنخواہ اور دیگر چیزوں کو ویکسین سے مشروط کیا جا رہا ہے ۔ فی الحال کشمیر کی بات کر لی جائے جسے شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ پاکستان ساری دنیا کا مسئلہ قرار دے چکے ۔ اور ساری دنیا کسی اور مسئلے میں اُلجھی ہوئی ہے لہٰذا کشمیریوں کو جو کچھ کرنا ہے اپنے بل پر کرنا ہے اور وہ ایسا ہی کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی طرف سے تو زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا جاتا ۔ یہ پانچ اگست بھی ایسے موقع پر آ رہی ہے کہ اس کے دو دن بعد بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالے گا اور پاکستان کی جانب سے کیا خوب کہا گیا ہے کہ پاکستان اس موقع پر بھارت کو سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل درآمد کی یاد دہانی کرائے گا۔دفتر خارجہ نے بھارت کے بارے میں امید ظاہر کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے اجلاس کو قواعد اور کونسل کی اقدار کے مطابق چلائے گا ۔ حیرت ہے 74برس سے بھارت کے دھوکے اورجھوٹ کو بھگتنے کے باوجود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھارت سے یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ قواعد و ضوابط اور اقدار کی پاسداری کرے گا اور پاکستان کے یاد دلانے پر وہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرا دے گا ۔ جو ملک73 برس سے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی دھجیاں اڑا رہاہے وہ سلامتی کونسل کا عارضی صدر بن کر اس کی قرار دادوں پر عمل کرنے لگے گا ۔ پاکستانی حکمرانوں کو اپنے عوام کے خلاف کشمیریوں جیسی پابندیاں لگانے سے فرصت نہیں مل رہی ہے وہ تو ان کو نوکریوں، تنخواہوں اور سفر پر پابندی کے طریقے سوچ رہے ہیں تو وہ کشمیر کے عوام کے لیے بھارت سے کیسے بات کر سکتے ہیں ۔ اگر بھارت کو اس کا وعدہ اور ذمے داری یاد دلانی ہے تو پاکستان کھل کر کشمیر کی آزادی کی بات کرے ۔ کشمیریوں کی امداد کے لیے وزیر اعظم پاکستان اور ان کے وزراء خود کنٹرول لائن پہنچیں اور5اگست کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اس طرح کریں کہ کنٹرول لائن عبور کر کے دکھائیں ، فریڈم فلوٹیلا کی طرز پر اپنے ساتھ ترکی ، چین ، ایران اور افغان نمائندوں کو لے کر جائیں ۔ لیکن کیا ایسا ہو گا؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے کیونکہ موجودہ حکومت بھی نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا تسلسل ہے یہ حکومت بھی کشمیریوں سے بے وفائی کرے گی ۔ جہاں تک کشمیریوںکے خلاف نئی پابندیوں کا تعلق ہے تو وہ آئین کی خلاف ورزی او ر بنیادی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتی ہیں تو جس حکومت نے یہ پابندی لگائی ہے وہ پورے بھارت میں یہی کر رہی ہے لیکن امریکا ، یورپ ، اقوام متحدہ سمیت کسی کو بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزی نظر نہیں آتی ۔ نظر آتی بھی ہے تو ان کی جانب سے کوئی کارروائی نظر نہیں آتی بلکہ الٹا بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے مسئلے کو ساری دنیا کا مسئلہ اپنے طور پر تونہیں کہاہو گا بلکہ یہ پی ٹی آئی حکومت کی پالیسی ہے اور اس پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کشمیریوں کے لیے فی الحال کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے لیے کچھ کرنے کا پی ٹی آئی کے لیے یہ آخری موقع ہے ۔ اور وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے5اگست کو کنٹرول لائن پہنچیں۔ عالمی امدادی تنظیموں کو ساتھ لے کر چلیں ، ریڈ کراس کو بلائیں اور کشمیریوں سے یکجہتی کا عملی ثبوت دیں ۔ بھارت سے کسی قسم کی رو اداری اور کسی قسم کے اصولی رویے کی توقع لگانا عبث ہے ۔ صورتحال یوں ہو گئی ہے کہ پاکستانی قوم کو پاکستانی حکومت سے، پاکستانی حکومت کو اقوام متحدہ اور دنیا سے امیدیں ہیں ۔ یہ صورتحال اس طرح واضح کی جا سکتی ہے کہ
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے