گھریلو ملازمین کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے

444

آئی ایل او عالمی ادارہ محنت نے 2011ء میں گھریلو ملازمین یا بنیادی خدمات فراہم کرنے والے کارکنان کے حقوق کو تسلیم کیا لیکن ایک دہائی گزر جانے کے باوجود پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں گھریلو ملازمین کے لیے جدوجہد ابھی بھی جاری ہے۔
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے گھریلو ملازمین ایکٹ 2019ء منظور کیا بلکہ تحفظ کی فراہمی کے لیے راہ بھی ہموار کی۔
عالمی وبا کے پھوٹنے کے بعد احساس ہوا کہ اس زمرے میں ابھی بہت سے ضروری اقدامات کرنے ابھی باقی ہیں۔ عالمی ادارہ محنت کی ایک رپورٹ کے مطابق اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے مزدور قومی لیبر قوانین کے دائرہ کار میں شامل ہی نہیں ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 8.5 ملین گھریلو ملازمین ہیں جن میں 55 فی صد خواتین ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ادارہ محنت کے 2011ء گھریلو ملازم کنونشن 189 کے ایک دہائی گزر جانے کے باوجود 61.5 فیصد کارکنان ایشیائی ممالک میں قومی لیبر قوانین کے دائرہ میں شمار ہی نہیں ہیں۔ جبکہ 84.3 فیصد غیر رسمی ملازمت میں شمار ہوتے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں 15 سال سے زیادہ عمر کے 38.3 ملین گھریلو ملازمین کام کرتے ہیں جن میں 78.4 فیصد خواتین ہیں۔ ایشیائی ممالک کا خطہ دنیا کا سب سے بڑا گھریلو ملازمین کا آجر تصور کیا جاتا ہے۔
ریجنل ڈائریکٹر ایشیاء اور بحرالکاہل چیوکو اسادہ میاکوانے کہا ’’ایشیائی ممالک میں گھریلو کام کو باقاعدہ پیشہ تصور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کی ابتداء لیبر اور سماجی تحفظ کے قوانین میں گھریلو کاموں کو شمار کرنے سے ہوگی۔ یہ اہم کارکنان تحفظ اور احترام کے حقدار ہیں۔ فلپائن ایشیاء کا واحد ملک ہے جس نے گھریلو ورکرز کنونشن 2011ء کی توثیق کی اور پہلی ڈومیسٹک ورکرز کی یونین بھی بنائی۔
عالمی ادراہ محنت کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطے میں گھریلو ملازمین کی اکثریت اپنے اوقات کار کی حد سے ناواقف ہے۔ نیز موجودہ لیبر قوانین کے تحت ہفتہ وار چھٹی کا نہ حق حاصل ہے اور نہ ہی کم از کم اجرت کا تعین ممکن ہوسکا ہے۔
پنجاب میں مزدوروں کے تحفظ کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے 2019ء کے گھریلو ملازمین ایکٹ منظور کرے ان کو باقاعدہ ورکرز کی پہچان دی مگر اس زمرے میں ابھی معاشی شراکت، قانونی ڈھانچہ کی تربیت، عمل درآمد کے اصول اور قواعد کا تعین ابھی باقی ہے۔
گھریلو ملازمین کنونشن 189 کو اپنائے جانے نے ایک دہائی گزرنے کے باوجود بھی ایشیائی ممالک میں کُل 19 فیصد گھریلو ملازمین کو دوسرے کارکنان کی طرح سماجی تحفظ حاصل ہے۔ 19 فیصد گھریلو ملازم سالانہ چھٹی کا حق رکھتے ہیں جبکہ 61.5 فیصد گھریلو ملازمین لیبر قوانین میں شمولیت ہی نہیں رکھتے۔
اس کارآمد کنونشن کے آنے کے بعد بہت سے ممالک میں گھریلو ملازمین کو سماجی تحفظ حاصل ہوا جبکہ ایک بڑی تعداد کارکنان کی آج بھی باوقار روزگار کو اختیار کرنے سے قاصر رہی ہے۔ سماجی قانونی و معاشرتی تحفظ کے فقدان سے ہر دس میں سے آٹھ ملازم غیر رسمی طور پر ملازمت پر معمور ہے۔ ILO کنونشن 189 کے مطابق وہ افراد جو گھروں میں جا کر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ گھریلو ملازمین کہلاتے ہیں۔ پیشہ ورانہ بنیاد پر یہ صفائی بچوں کی نگہداشت، ضعیف اور معذور افراد کی دیکھ بھال، کھانا پکانے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ نیز باغبانی، ڈرائیونگ اور گھر کے محافظ کے طور پر بھی دیکھے جاتے ہیں۔ ان ورکرز کی کام کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے گھر کو ان کی جائے کار سمجھانا چاہیے۔
پاکستان میں گھریلو ملازم ایکٹ 2019ء کے تحت اب یہ سماجی و قانونی فوائد کے حقدار ہیں۔ ان کی قانونی فوائد تک رسائی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ابھی بہت سے اہم اقدامات کرنے کی اشد ضرورت درپیش ہے تا کہ باوقار روزگار ان کے لیے صرف ایک خواب کی حیثیت نہ اختیار کرلے۔ اس غیر فعال قانون کو عملدرآمد کے لیے ماہرین کی رائے کے مطابق تمام گھریلو ملازمین کو سماجی تحفظ کے ساتھ ساتھ زچگی و نقد فوائد سمیت کم از کم اجرت اور اوقات کار کے مختص ہونے کو بھی یقینی بنایا جائے۔
اس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری کہ گھریلو ملازمین سے متعلق کسی بھی قسم کی پالیسیاں مرتب کرنے کے لیے ان کی صحیح نمائندگی اور شمولیت ہو تا کہ دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی طرح یہ بھی سماجی تحفظ سے مستفیض ہوسکیں۔