محکمہ محنت اور وزیر محنت سندھ کی کارکردگی

242

سندھ میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ13سال سے مسلسل حکومت قائم ہے۔ لیکن اس طویل عرصے کے باوجود محنت کشوں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ موجودہ وزیر محنت اپنی دیگر وزارتوں سے باہر نکلنے اور محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لئے کوئی موثر پالیسی بنانے اور محنت کشوں کو ان کے حقوق دلانے کے بجائے نئے نئے تجربہ کر رہے ہیں۔ نام نہا د گورننگ باڈی بنا کر سوشل سیکورٹی ، ورکز ویلفیئر بورڈ ، ورکز ماڈل اسکولز کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل فنڈ کو ورکرز ویلفیئر بورڈ اور دیگر اداروں میں مند پسند افسران کو تعینات کرکے انہیں بے پناہ سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور محنت کشوں کو جائز اور قانونی مراعات سے محروم کیا جارہا ہے۔ جبکہ پسندیدہ افراد پر مشتمل گورنگ باڈیز کی ملی بھگت سے سندھ کے محنت کش حقیقی مراعات سے یکسر محروم ہیں جہیز گرانٹ، ڈیتھ گرانٹ، ایجوکیشن، اسکالرشپ ، علاج معالجہ اور دیگر سہولیات سے محروم کر کے ایسے اداروں جن کا کوئی وجود نہیں کے گھوسٹ محنت کشوں کو تمام مراعات سے نوازا جا رہا ہے اور یہ سب موجودہ صوبائی وزیر محنت سعید غنی کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ ہر سال یوم مئی پر بڑی سرکاری تقریب منعقد کر کے جس میں کروڑوں روپوں کے اخراجات محکمہ محنت کے ادارے ادا کرتے ہیں لیکن سندھ کے حقیقی لیبر فیڈریشنوں اور حقیقی مزدور نمائندوں کو ان تقاریب میں یکسر نظر انداز کیا جاتاہے اور نہ کسی گورننگ باڈی میں آج تک شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ کئی لیبر فیڈریشنیں جو کہ محنت کشوں میں حقیقی نمائندگی رکھتی ہیں اعتراضات اور احتجاج چیئرمین پیپلز پارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری کو بھی باور کرواچکی ہیں۔ لیکن وزیر محنت سندھ پر اس سب کا کوئی اثر نہیں ہوا اور مسلسل ان کی کارکردگی افسوس ناک ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں صرف حکومت کی بغل بچہ پیپلز لیبر بیورو میں ہی صرف محنت کش اور ان کے نمائندے سندھ کے محنت کشوں کی نمائندگی کا حق رکھتے ہیں ایسے لیڈروں کو کئی گورننگ باڈی میں شامل کیا ہوا ہے جو بغیر سہارے چلنے کے بھی قابل نہیں ہیں لیکن موجودہ وزیر محنت کی نظروں میں وہ انتہائی فعال ہیں۔ سعید غنی نے لیبر نمائندوں کی NGOsپر مشتمل کمیٹیوں کے افراد کو بھی خوب نوازا ہوا ہے جو کہ پیپلز پارٹی کی بنیادی پالیسیوں اور منشور کے خلاف ہے جبکہ ماضی میں پیپلز پارٹی ہی کے وزیر محنت خواجہ اعوان محنت کشوں کے حقیقی نمائندوں سے رابطہ بھی رکھتے تھے اور ان کے مشورہ سے محنت کشوں کے لیے پالیسیاں اور اسکیمیں لاتے تھے جس کے نتیجے میں محنت کشوں کو ان کے حقوق بھی مل جاتے تھے۔ اسی طرح 2008سے2013کے درمیان رہنے والے وزیر محنت امیر نواب بھی محنت کشوں کے حقیقی نمائندوں کو ان کا جائز مقام اور عزت دیتے تھے اور ان کے مشوروں سے ہی محنت کشوں کی بہتری کے لئے منصوبہ بناتے تھے اور سندھ کی تمام لیبر فیڈریشنیں ان کی کارکردگی سے مطمئن تھیں۔ اس کے علاوہ MQMسے وابستہ وزیر محنت شعیب بخاری نے بھی سندھ کے محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی اور سندھ کے لیبر فیڈریشنوں کے نمائندوں کے ساتھ اچھے روابط قائم رکھے۔ خصوصاً نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ شدید سیاسی اور نظریاتی اختلاف ہونے کے باوجود اس وقت کے نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ کے صدر رانا محمود علی خان کی دعوت پر اسمبلی بلڈنگ کراچی میں محنت کشوں کے نمائندہ وفد سے جس کی قیادت رانا محمود علی خان نے کی سندھ اسمبلی میں ملاقات کی اور متعلقہ اداروں کے تمام سربراہوں کو اس میٹنگ میں شامل کیا اور تمام مسائل کو بڑی توجہ سے سن کر اور ان پر فوری عمل درآمد کے احکامات صادر کیے۔ اس کے علاوہ رانا محمود علی خان کے خط کی روشنی میں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے بھی نیشنل لیبر فیڈریشن کے وفد سے محنت کشوں کی مشکلات کی بابت معلومات حاصل کی اور ان مشکلات کو رفع کرنے کے لیے احکامات جاری کیے۔ اسی طرح موجودہ حکومت میں سندھ کے بیوروکریسی میں اکھاڑ، پچھاڑ کے باوجود سیکرٹری لیبر عبد الرشید سولنگی ایک طویل عرصہ سے حکومت کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں جب کہ طریقہ کار کے مطابق کسی بھی آفیسر کو 3سال سے زیادہ ایک ہی عہدہ پر برقرار نہیں رکھا جا سکتا اور سیکرٹری کی سطح کے آفیسر کی وزارت کو تبدیل کیا جانا ضروری ہے لیکن موجودہ سیکرٹری لیبر شاید وزیر محنت اور موجودہ حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اسی لیے طویل عرصے سے محکمہ محنت میں سیکرٹری کے طور پر تعینات ہیں چیف سیکرٹری سندھ بھی محکمہ محنت کی بدحالی پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔