حکومت کرپشن پر قابو کیوں نہیں پا رہی

439

اس سوال کا جواب دو حصوں میں دیا جانا چاہیے۔ پہلے حصے میں ہم یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ سرمایہ دارانہ کرپشن کو عمران خان کیوں ختم نہیں کر سکا۔ دوسرے حصہ میں یہ بتایا جائے گا کہ حقیقی کرپشن کو سرمایہ دارانہ نظاماتی تناظر میں کیوں ختم نہیں کیا جا سکتا۔
سرمایہ دارانہ کرپشن کیا ہے؟
سرمایہ داری ایک کلی(totalizing) نظام حیات اور طرز زندگی ہے۔ اس کا اپنا ایک منفرد تصورِ عدل ہے۔ عدل کے اس تصور کی خلاف ورزی کو سرمایہ دارانہ کرپشن کہتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں عدل کا مفہوم یہ ہے کہ تمام دولت سرمایہ دارانہ ملکیت میں تبدیل ہو جائے اور اس دولت کے استعمال کا واحد مقصد بڑھوتری سرمایہ ہو۔ ایک عادلانہ نظام وہ ہے کہ ہر سرمایہ کے عامل کو وہ اجر دیا جائے جو اس کے بڑھوتری سرمایہ کے عمل میں حصہ ڈالنے کے مطابق ہو۔ عدل کے اس تصور کا سب سے مقبول عام نظریہ Marginal Productivity Theory ہے۔ اسی تصورِ عدل سے سرمایہ دارانہ انفرادی اور اجتماعی حقوق (ہیومن اور سوشل رائٹس) برآمد کیے جاتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ ظلم یہ ہے کہ فرد سرمایہ دارانہ حقوق سے محروم رہے یعنی تحکم قانون سرمایہ کی تنفیذ ناقص یا نامکمل ہو۔ سرمایہ دارانہ ترسیلی نظام (مارکیٹ اور پلان) فرد اور اداروں کو وہ اجیرنہ مہیا کر سکے جو اس کے بڑھوتری سرمایہ میں حصہ ڈالنے کے مطابق ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مخلص خادم ہے۔ وہ پاکستان میں ایک مکمل سرمایہ دارانہ نظام قائم کرنا چاہتا ہے لیکن یہ کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔
عمران خان کی ناکامی کی وجوہات
اس ناکامی کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظاماتی تغلب غیر مکمل اور غیر مستحکم ہے۔ ابھی تک ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت سول سوسائٹی وجود میں نہیں آئی اور ریاست کے پاس وہ قوت نہیں کہ ایسی سول سوسائٹی کو تشکیل دے سکے۔ اشرافیہ بالخصوص تحکم قانون سرمایہ کی خلاف ورزی کی استطاعت بدرجہ اتم رکھتی ہے۔ سیاسی نظام موالیت (client patronage system)پر مبنی ہے اور گروہ اپنے گروہی مفادات کے فروغ کے لیے قومی بڑھوتری سرمایہ کے تقاضوں کو منہدم کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے اور استعداد بھی۔ ریاستی اداروں کی حرکیات (dynamic)اسی موالیت کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں سرمایہ دارانہ کرپشن ہنوز ترقی پذیر ہے اور سرمایہ دارانہ عدل کی فراہمی ایک دیوانے (عمران خان) کے خواب کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
دوسری وجہ سامراجی نظام میں پاکستان کا انضمام ہے۔ سامراج سرمایہ داری کا عالمی نظام ہے اور عالمی سرمایہ دارانہ حرام خور مارکیٹ جس اصول پر کام کرتے ہیں وہ عالمی بڑھوتری سرمایہ کو maximize کرنا ہے۔ ظاہر ہے کسی غریب ملک میں بڑھوتری سرمایہ کو maximize کرنا ان کا ہدف نہیں اور نہ عالمی سطح پر بڑھوتری سرمایہ کو مہمیز دینے کی حکمت عملی کے نتیجہ میں غریب ممالک کی بڑھوتری سرمایہ کی رفتار خودبخود maximize ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہماری آئی ایم ایف کی تابعداری سے عیاں ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی تابعداری کے نتیجہ میں پاکستانی سرمایہ کاری کی شرح مستقل گر رہی ہے۔
پھر سامراجی حرام خور مارکیٹوں کی کارفرمائی پاکستانی اشرافیہ کو اس بات کا وافر موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ پاکستان سے اپنا سرمایہ عالمی حرام خور مارکیٹوں میں منتقل کرتے رہیں اور اس فعل کو فروغ دینے میں بین الاقوامی قانون ترسیل زر ان کی پوری اعانت کرتا ہے۔ جب تک اس سامراجی قانونی گرفت سے چھٹکارا نہیں پا یا جاتا (اور ظاہر ہے عمران خان جیسا بزدل اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا)پاکستان سے سرمایہ دارانہ کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے۔
پھر تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ عدل کا قیام اصولا ناممکن ہے۔ کیونکہ بڑھوتری
سرمایہ کو maximize کرنے کی کوئی ریشنل حکمت عملی ترتیب دی ہی نہیں جا سکتی۔ بڑھوتری سرمایہ کا عمل لازما ظن و تخمین اور سٹہ بازی پر منحصر ہے اور طاقت ور سرمایہ دارانہ گروہ اپنے ذاتی مفادات اور حکمت عملی کو مجموعی بڑھوتری سرمایہ کی حکمت عملی کے طور پر قبول کروانے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجہ میں ارتکاز سرمایہ بے تحاشا بڑھتا ہے۔ آج امریکا دنیا کا کرپٹ ترین ملک ہے لیکن وہاں کرپشن کا سرچشمہ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں ہیں جو ہر سال اپنے کرپشن کیسز چھپانے کے لیے کھربوں ڈالر صرف کرتی ہیں۔ کرپشن کا دوسرا سرچشمہ امریکا کا سیاسی نظام ہے جہاں کھلم کھلا لابیز کی سودے بازی کی بنیاد پر عرصہ دراز سے قانون سازی کی جا رہی ہے۔
ایک مکمل سرمایہ دارانہ نظام کے قیام کا مطلب صرف یہ ہے کہ عام آدمی کو اس ظالمانہ نظم کا محتاج بنا دیا جائے اور طاقت ور سرمایہ کار گروہوں کو من مانی کرنے کے وافر مواقع فراہم کیے جائیں۔سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دارانہ عدل بھی قائم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سرمایہ دارانہ نظامتی تضادات میں اہم ترین تضاد ہے۔
حقیقی کرپشن کا خاتمہ
ہم اسلامی انقلابی ہیں۔ ہم سرمایہ دارانہ عدل کو ظلم عظیم کہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کا مقصدخیانت اور فساد کا فروغ ہے۔ اس سے بڑھ کر خیانت اور کیا ہو گی کہ دولت کو معاد کمانے کے لیے نہیں سرمایہ کی بڑھوتری کا ذریعہ بنا دیا جائے۔ اس سے بڑھ کر فساد کیا ہو گا کہ علوم اسلامی اور شریعت مطہرہ کی حاکمیت کی جگہ تحکم قانون سرمایہ کی بنیاد پر نظام مملکت و معاشرت مرتب کیا جائے۔
سرمایہ دارانہ کرپشن کے خاتمہ کی لایعنی جدوجہد میں شرکت کے لیے اسلامی تعلیمات کی رائج شدہ تحریفات کو ہم مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ سرمایہ داری حقیقی کرپشن ہی ہے اور ہم اس کے مکمل خاتمہ کے لیے اس کے تضادات کو مہمیز دینے کا عزم رکھتے ہیں۔
حقیقی کرپشن کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ اور ریاست کو غیر سرمایہ دارانہ خطوط پر مرتب کیا جائے۔ یہ ایک طویل المدت جدوجہد ہے جس کی بنیاد یں دو ہیں۔مخلصین دین کو مقامی سطح پر مسجد کی بنیاد پر متحد کرنا۔ مخلصین دین کی ریاستی قوت نافذہ کو فروغ دینا تاکہ بتدریج تحکم قانون سرمایہ مجروح ہوتا چلا جائے۔ 2023 کے انتخابات کی تیاری اسی جدوجہد کو آگے بڑھانے کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے ان شا اللہ اور ظاہر ہے کہ عمران خان جیسے دہریہ سامرجی آلہ کار کو شکست دینا ایک ناگزیر ہدف ہے۔